علامہ ابو الفتح محمد بن عبد الکریم بن احمد شہرستانی(م : ٥٤٨ھ)ایک رافضی کذاب ابراہیم بن یسار ا بن ہانی النظام کے حالات لکھتے ہوئے اس کی بدعقیدگی کے پول بھی کھولتے ہیں۔ اس کا ایک جھوٹ علامہ شہرستانی نے یوں بیان کیا ہے کہ اس رافضی کذاب نے کہا :
رافضی شیعہ اس روایت کو بنیاد بنا کر خلیفہ راشد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر تبرابازی کرتے ہیں، لیکن اس روایت کی نہ تو ابراہیم بن یسار تک کوئی سند مذکور ہے نہ ابراہیم سے آگے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تک کوئی سند دنیا کی کسی کتاب میں موجود ہے۔یہ روایت دنیا کا سفید جھوٹ اور شیطان لعین کی کارستانی ہے۔ اس طرح کی جھوٹی بے سند اور بے سروپا روایات سے صحابہ کرام]کے خلاف پراپیگنڈہ کرنا ناعاقبت اندیشی ہے۔
ابراہیم بن یسار ابن ہانی النظام گندے عقیدے کا حامل تھا اور یونانی فلسفے سے بہت متاثر تھا۔ معتزلی مذہب رکھتا تھا اور اس کے نام پر فرقہ نظامیہ نے جنم لیا۔
حافظ ذہبی(٦٧٣۔٧٤٨ھ) نے احمد بن محمد بن ابی دارم ابو بکر کوفی (م : ٣٥١ھ) کے ترجمہ میں ابو الحسن محمد بن احمد بن حماد بن سفیان کوفی حافظ(م : ٣٨٤ھ) کے حوالے سے اس کے بارے میں لکھا ہے :
یاد رہے کہ حافظ ذہبی نے اس ابن ابی دارم کے بارے میں لکھا ہے :
امام حاکم اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
وہ شخص شیطان ہی ہو سکتا ہے جو اس جھوٹے رافضی کے پاس جھوٹ پڑھ رہا تھا۔ دنیا میں اس کی کوئی سند موجود نہیں ، نہ رافضیوں کی کتب میں نہ اہل سنت کی کتب میں۔رافضی شیعوں کو چاہیے کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اس جھوٹ کی سند پیش کریں، ورنہ توبہ کر لیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بہت سخت ہے اور اس کا عذاب بہت دردناک ہے۔