روافض دلیل دیتے ہیں:
حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّة عَمْروِ بْنِ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ قَالَ: سَمِعْتُ جَدِّی یُحَدِّثُ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ أَخَذَ الْإِدَاوَۃَ بَعْدَ أَبِی ہُرَیْرَۃَیَتْبَعُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہَا، وَاشْتَکٰی أَبُوہُرَیْرَۃَ فَبَیْنَا ہُوَ یُوَضِّیئُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَفَعَ رَأْسَہُ إِلَیْہِ مَرَّۃً أَوْ مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ: ((یَا مُعَاوِیَۃُ! إِنْ وُلِّیتَ أَمْرًا فَاتَّقِ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَاعْدِلْ۔)) قَالَ: فَمَا زِلْتُ أَظُنُّ أَنِّی مُبْتَلًی بِعَمَلٍ لِقَوْلِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتَّی ابْتُلِیتُ۔
ابو امیہ عمرو بن یحییٰ بن سعید کہتے ہیں: میں نے اپنے دادا سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیمار پڑ گئے تھے اوران کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے وضو کا برتن سنبھال لیا اور وہ برتن لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہنے لگے، ایک دن وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وضو کرا رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دو دفعہ اپنا سرمبارک ان کی طرف اٹھایا اور فرمایا: معاویہ! اگر تجھے حکومت ملے تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور عدل کا دامن تھامے رکھنا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بات کے پیش نظر مجھے یقین تھا کہ مجھے حکومت کے معاملے میں آزمایا جائے گا، بالآخر یہی ہوا۔
(مسند احمد: ۱۷۰۵۷/12411)
روافض اس حدیث سے غلط استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عنہ کی امارت کے اندر عدل اور تقوی کا فقدان تھا اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں یہ وصیت کی تھی۔
اولا:
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
علامہ شعیب ارناؤوط رحمہ اللہ بھی اس کو منقطع کہتے ہیں اور علت يه بيان كرتے ہینکہ عمرو کے دادا سعید کا معاویہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
ثانیاً:
روافض کا یہطفلانہ استدلال لائق تعجب ہے حالانکہ کسی کو وصیت کرنے کا مقصد یہی ہوتا ہے ہے کہ کہ صرف اس کو تلقین کرنا ان کاموں کو مزید مضبوطی کے ساتھ پکڑ لے۔ قرآن میں اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا ہے:
يا ايها النبي اتق الله ولا تطع الكافرين والمنافقين
اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ تقوی اختیار کریں کریں اور کافروں اور منافقوں کا کبھی کہنا نہ مانیں۔
معاذاللہ کیا اب کوئی کہ سکتا ہے کہ رسول اللہ ص اسلم کے اندر تقوی نہیں تھی تبھی اللہ نے انہیں تقوی کا حکم دیا ہے؟
اسی طرح اہل ایمان کو بھی کہا گیا ہے۔يا ايها الذين امنوا اتقوا الله... اے اہل ایمان تم اللہ کی تقوی اختیار کرو۔۔۔۔۔
کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے اس ٹائم جب یہ آیت نازل ہوئی، اہل ایمان صحابہ کے دلوں میں تقوی نہیں تھا؟
اس وجہ سے اللہ نے انہیں تقوی اختیار کرنے کا حکم ہے؟
ہر گز نہیں کہ سکتا یہاں صرف تلقین کرنا اور تقوی پے مضبوطی کے ساتھ کاربند رہنے کا حکم ہے اسی طرح طرح معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا ہے۔
یاد رہے اس طرح کی وصیتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تمام تر صحابہ کو کی تھیں اس کےلیے احادیث میں سینکڑوں مثال موجود ہیں بلکہ آپ آخری اکثر خطبوں میں فرمایا کرتے تھے (اوصيكم بتقوى الله) میں تم سب کو تقوی کی وصیت کرتا ہوں ہو۔
ثالثاً:
اگر اس روایت کو صحیح مانا جائے تو حقیقت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر دلیل ہے کیوں کہ کہ اس طرح کی مبارک نصیحت و وصیت عموماً خیرخواہی کی نیت سے اپنے پیاروں کو ہی کی جاتی ہے ۔جیسا کہ کہ قرآن مقدس کے اندر یعقوب علیہ الصلاۃ والسلام کی وصیت اپنے بیٹوں کے لیے موجود ہے۔
معاویہ رضی اللہ عنہ کا عدل اور فیصلے انتہائی عادلانہ اور معیاری ہوتے تھے جلیل القدر صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
قال سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه : " ما رأيتُ أحدًا بعد عثمان أقضى بحق من صاحب هذا الباب " يعني معاوية۔
مفہوم: حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو معاویہ سے زیادہ حق والا فیصلہ کر سکتا ہو۔
( سیر اعلام النبلاء ج4 ص 306 ذکرہ ابن عساکر رحمہ اللہ فی تاریخہ بسندہ الی اللیث ج59 ص 161)
سند کے رواۃ پر کلام پیش ہے:
(1) لیث بن سعد :
قال عنہ الحافظ ثقۃ ثبت امام مشہور
( التقریب ت5684 ص519)
(2) بکیر بن عبد اللہ بن الاشج:
قال عنہ الحافظ : ثقۃ
( التقریب ت760 ص 102)
(3) بسر بن سعید:
قال الحافظ : ثقۃ جلیل
( التقریب ت666 ص96)
نوٹ:اس قول کے اندر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہت بڑی فضیلت بیان ہوئی کیوں کہ حق پرستی کے حوالے سے ان کے فیصلے ان کی فضیلت پر واضح دلیل ہیں اور یہ گواہی آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے پیارے اور جنتی صحابی حضرت سعد رضی اللہ عنہ دے رہے ہیں۔
دوسرے اعتراض کا جواب ملاحظہ ہو۔
روافض کی دلیل ہے:
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِسْحَقُ أَخْبَرَنَا و قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْکَعْبَةِ قَالَ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْکَعْبَةِ وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ فَأَتَيْتُهُمْ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يُصْلِحُ خِبَائَهُ وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ إِذْ نَادَی مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَاجْتَمَعْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ لَمْ يَکُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا کَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَی خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَإِنَّ أُمَّتَکُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَائٌ وَأُمُورٌ تُنْکِرُونَهَا وَتَجِيئُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَتَجِيئُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ مُهْلِکَتِي ثُمَّ تَنْکَشِفُ وَتَجِيئُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ هَذِهِ هَذِهِ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنْ النَّارِ وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَأْتِ إِلَی النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَی إِلَيْهِ وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ فَلْيُطِعْهُ إِنْ اسْتَطَاعَ فَإِنْ جَائَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقُلْتُ لَهُ أَنْشُدُکَ اللَّهَ آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْوَی إِلَی أُذُنَيْهِ وَقَلْبِهِ بِيَدَيْهِ وَقَالَ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي فَقُلْتُ لَهُ هَذَا ابْنُ عَمِّکَ مُعَاوِيَةُ يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْکُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا وَاللَّهُ يَقُولُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَکُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ إِنَّ اللَّهَ کَانَ بِکُمْ رَحِيمًا قَالَ فَسَکَتَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ
زہیر بن حرب، اسحاق بن ابراہیم، اسحاق ، زہیر، جریر، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبدالرحمن بن عبد رب کعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ ان کے ارد گرد جمع تھے میں ان کے پاس آیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا تو عبداللہ نے کہا ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ہم ایک جگہ رکے ہم میں سے بعض نے اپنا خیمہ لگانا شروع کردیا اور بعض تیراندازی کرنے لگے اور بعض وہ تھے جو جانوروں میں ٹھہرے رہے اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آواز دی الصلوة جامعة (یعنی نماز کا وقت ہوگیا ہے) تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سے قبل کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے ذمے اپنے علم کے مطابق اپنی امت کی بھلائی کی طرف راہنمائی لازم نہ ہو اور برائی سے اپنے علم کے مطابق انہیں ڈرانا لازم نہ ہو اور بے شک تمہاری اس امت کی عافیت ابتدائی حصہ میں ہے اور اس کا آخر ایسی مصیبتوں اور امور میں مبتلا ہوگا جسے تم ناپسند کرتے ہو اور ایسا فتنہ آئے گا کہ مومن کہے گا یہ میری ہلاکت ہے پھر وہ ختم ہو جائے گا اور دوسرا ظاہر ہوگا تو مومن کہے گا یہی میری ہلاکت کا ذریعہ ہوگا جس کو یہ بات پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو چاہیے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ اس معاملہ سے پیش آئے جس کے دیئے جانے کو اپنے لئے پسند کرے اور جس نے امام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر دل کے اخلاص سے بیعت کی تو چاہیے کہ اپنی طاقت کے مطابق اس کی اطاعت کرے اور اگر دوسرا شخص اس سے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن مار دو راوی کہتا ہے پھر میں عبداللہ کے قریب ہوگیا اور ان سے کہا میں تجھے اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو عبداللہ نے اپنے کانوں اور دل کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا میرے کانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا تو میں نے ان سے کہا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی معاویہ ہمیں اپنے اموال کو ناجائز طریقے پر کھانے اور اپنی جانوں کو قتل کرنے کا حکم دیتے ہیں اور اللہ کا ارشاد ہے اے ایمان والو اپنے اموال کو ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ ایسی تجارت ہو جو باہمی رضا مندی سے کی جائے اور نہ اپنی جانوں کو قتل کرو بے شک اللہ تم پر رحم فرمانے والا ہے راوی نے کہا عبداللہ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر کہا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو۔
( مسلم:باب وجوب الوفاء ببیعۃ الخلفاء)
اس الزام کی حقیقت کیا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں:
اس حدیث میں جو شخص سوال کر رہا ہے حضرت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یعنی عبدالرحمان بن عبدربہ وہ سیدنا معاویہ رضي الله عنه کا سیاسی حریف تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا حامی تھا اور کوفی کا رہنے والا تھا ، ظاہر ہے اس دور میں امت مسلمہ سیاسی طور پر تقسیم ہوچکی تھی اور مسلمانوں کے دو بڑے گروہ بن چکے تھے، جو قصاص عثمان کے مسئلہ پر ایک دوسرے سے سخت اختلاف رکھتے تھے اور مسلمان دشمنان اسلام یعنی سبائی گروہ، قاتلین عثمان کی سازشوں اور کاوشوں کا شکار ہوکر آپس میں جنگیں بھی لڑ چکے تھے ، ایسے حالات میں عبدالرحمان بن عبدربہ جو کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا مخالف تھا اور وہ اس موقعہ پر جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے ، کھل کر تنقید بھی کر رہا ہے، تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مخالف آدمی تھا، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی سللہ عنہ اسے حکم دیں کہ لوگوں کا مال ناحق کھاؤ، یا انہیں کہیں کہ ناحق قتل بھی کرو۔۔؟؟ ظاہر ہے کہ معاویہ رضی اللہ نے کسی کو قتل کروانا تھا تو اپنے حامیوں کو حکم دیں گے یا پھر اپنے مخالف کو؟ اس لئے عبدالرحمان بن عبدربہ کے یہ الفاظ حضرت امیر معاویہؓ پر بے جا تنقید ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
معزز قارئین!
جب یہ شخص سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے سیاسی نظریے کو نہیں مانتا تھا اس لیے روایت کے بارے علماء اہل سنت یہی مؤقف رکھتے ہینکہ عبدالرحمان بن عبدربہ کے الفاظ اصل میں ظاہری معنی کے ساتھ عمومی حالت میں تسلیم کرنا درست نہیں بلکہ مقصدتھا جو لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ سے تھے وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی آپس کی لڑائی میں جو قتل ہورہے ہیں وہ ناحق قتل ہورہے ہیں اور جو مال خرچ ہو رہا ہے وہ ناحق خرچ ہو رہا ہے، اور اس نقصان کی ذمہ داری حضرت امیر معاویہ رضی اللہ پر ہے بلکہ آج بھی رافضیوں اور نیم رافضیوں کا یہی نظریہ ہے۔
جیساکہ امام نووی اس کی شرح میں رقمطراز ہیں:
فاعتقد هذا القائل هذا الوصف في معاوية لمنازعته عليا رضي الله عنه ، وكانت قد سبقت بيعة علي فرأى هذا أن نفقة معاوية على أجناده وأتباعه في حرب علي ومنازعته ومقاتلته إياه ، من أكل المال بالباطل ، ومن قتل النفس ، لأنه قتال بغير حق ، فلا يستحق أحد مالا في مقاتلته .
نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ( عبد الرحمن بن عبد رب کعبہ نے جو اعتراض کیا اس کا پس منظر یہ تھا کہ) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پہ مسلمانوں نے بیعت کر لی تھی (بیعت کے بعد خلیفہ کی اطاعت کرنےکا حکم ہے اور اس کی نافرمانی سے رکنے کاحکم ہے) تو معاویہ رضی اللہ عنہ جو اپنے لشکروں پر جو مال خرچ کررہے ہیں اور جو لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی میں مارے جارہے ہیں یہ تو گویاکہ یہ ناحق ہے تو اس تناظر میں عبد الرحمن بن عبد رب کعبہ نے یہ بات کی تھی کہ یہ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت ہے جو درست نہیں ہے،حق نہیں ہے ناحق ہے،یہ ان کا موقف تھا۔
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنھما بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس جنگ کے معاملے میں مخالفت کرتے تھے۔ مسند احمد کی کچھ احادیث کے مطابق سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما نے تو دورانِ جنگ ہی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہہ دیا تھا کہ میں آپ کے ساتھ تو ہوں لیکن آپ کےساتھ مل کر لڑائی نہیں کر رہا،آپ لوگ غلطی پر ہو۔ اس لیے انہوں نے رد نہیں کیا۔
اھم ترین نوٹ:
اس جنگ کے حوالے سے ہم اپنا موقف بار بار بیان کرچکے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے ساتھی اجتھادی خطاء پر تھی اسی وجہ سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اس مسئلہ میں حق پر قرار دیا تھا، تو لھذا اس جنگ کے تناظر میں راوی کا یہ تبصرہ مردود سمجھا جائے گا۔
اھم ترین وضاحت:
یاد رکھیں راوی کا یہ تبصرہ صرف جنگی معاملات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے معاویہ رضی اللہ عنہ کے عمومی حالات پر نہیں۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی بادشاہت کو رحمت کہا اور تعریف کی تو نیم روافض اس پر تنقید کرنے والے کون ہو سکتے ہیں؟
معاویہ کی حکومت رحمت اور ممدوح ہے۔ ہم یہاں اس حوالے سے ایک حدیث پیش کرتے ہیں:
الرسول صلی اللہ علیہ وسلم:أول هذا الأمر نبوة ورحمة ثم يكون خلافة ورحمة ثم يكون ملكا ورحمۃ۔
یعنی: ( اس امت میں اقتدار سنبھالنے کا آغاز ) نبوت اور رحمت کے ساتھ ہوگا اس کے بعد خلافت اور رحمت کا دور شروع ہوگا؛اس کے بعد بادشاہت اور رحمت کا دور آئے گا۔
رواہ الطبرانی رحمہ اللہ فی المعجم الکبیر(ج11 ص88) وذكره الالباني رحمة الله عليه في السلسلة الصحيحة ح:3279
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس امت میں اقتدار سنبھالنے کا جو معاملہ ہے اس کا پہلا دور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور ہے جسے نبوت اور رحمت والا دور کہا گیا اس کے بعد جو دور شروع ہوگا وہ خلافت اور رحمت والا دور ہوگا ؛ یہ خلفاء راشدین کا تیس سالہ دور ہے نیز حدیث کے اس جملہ سے چاروں خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خلافت بر حق ثابت ہوئی۔
اس حدیث میں خلافت والے دور کے بعد جس دور کا تذکرہ ہے اس کو بادشاہت اور رحمت والا دور کہا گیا اور اس سے مراد معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور ہے اس حدیث کے ٹکڑے نے ثابت کر دیا کہ معاویہ کی بادشاہت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں رحمت والی بادشاہت ہے اور محمود و تعریف شدہ ہے۔الحمدللہ یہ حدیث لمحہ فکریہ ہے ان افراد کےلیے جو معاویہ رضی اللہ عنہ کی بادشاہت پر اعتراضات کرتے ہیں۔
ایک اور اھم بات یہ ہے کہ اگر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اندر راوی کی طرف الزام کردہ چیزیں ہوتی تو جنتی شہزادے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما اور دیگر کبار صحابہ اسکی بیعت کبھی نہ کرتے اور کبھی انکے سامنے اس حق کہنے سے نہ رکتے ۔