امام نسائي رحمہ اللہ (المتوفى303)نے کہا:
ہماری نظر میں یہ روایت ضعیف ۔
اس کی سند میں ایک ”خالد بن مخلد القطواني“ ہے۔
بعض محدثین نے اس کی توثیق کی ہے جبکہ بعض نے اس پر جرح کی ہےچنانچہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا:
ان اقوال کی بنیاد پربعض اہل علم نے اس راوی کوضعیف قراردیا ہے چنانچہ :
تحرير التقريب كے مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط)اس راوی کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس پر نکارت کی جرح ہونے کے ساتھ ساتھ اس پرشیعیت کی بھی جرح ہے جیساکہ اس کے شاگرد امام ابن سعد رحمہ اللہ نے گواہی دی ہے۔نیز دیگراہل علم نے بھی اس کی تائید کی ہے۔
اورزیر نظر روایت میں اس کی شیعیت بہت نمایاں ہے اسی لئے تو اہل تشیع اسے مزے لے لے کربیان کرتے ہیں۔
وربعض اہل علم کی تحقیق یہ ہے کہ یہ راوی جب اہل مدینہ سے روایت کرے گا تو اس کی روایت مقبول ہوگی مگر جب وہ اہل مدینہ کے علاوہ دیگرلوگوں سے روایت کرے تو اس کی روایت غیرمقبول ہوگی چنانچہ:
امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795)نے کہا:
اوریہ زیرنظر روایت میں اس نے یہ روایت اہل مدینہ سے نہیں بیان کی ہے بلکہ اہل کوفہ سے بیان کی ہے اس لئے یہ روایت ضعیف ہے۔
واضح رہے کہ یہ بخاری ومسلم کا راوی ہے اوربخاری ومسلم کے راوی عام طور سے ثقہ ہوتے ہیں لیکن بعض ضعیف بھی ہوتے اوربخاری ومسلم کی علاوہ دیگرکتب میں ان کی روایات ضعیف قراردی جاتی ہیں ۔
مثلا بخاری ومسلم کا ایک راوی ”الفضيل بن سليمان النمیری“ ہے۔
بخاری میں اس راوی کی بیسوں احادیث ہیں ۔اور مسلم میں بھی کئی احادیث ہیں۔لیکن یہ ضعیف راوی ہیں ۔
اسی راوی نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھاتے تھےیعنی ہاتھ اٹھاکردعاکرتے تھے۔
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
لیکن اہل علم نے اس کی حدیث کو ”الفضيل بن سليمان النمیری“ کی وجہ سے ضعیف کہا ہے حالانکہ یہ بخاری ومسلم کاراوی ہے۔
زبیرعلی زئی صاحب بخاری ومسلم کے اس راوی کو ضعیف قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس کا راوی ”الفضيل بن سليمان النمیری“ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے ، صحیحین میں اس کی تمام روایات شواہد ومتابعات کی وجہ سے صحیح ہیں۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کو ضعیف کہا ہے ،دیکھئے:
اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
اس لئے ضروری نہیں ہے کہ کوئی راوی بخاری مسلم کا ہو تو لازمی طورپرثقہ ہیں ۔بلکہ بخاری ومسلم کے رجال میں بعض ضعیف رواۃ بھی ہیں اور امام بخاری ومسلم متابعات وشواہداورجانچ پڑتال کی بنیاد پرایسے رواۃ کی احادیث بھی ان کی سندوں میں امتیازی خوبیوں کے باعث لے لیتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ درج بالا روایت ضعیف ہے۔
کیونکہ اس کی سند میں موجود ”خالدبن مخلد“ متکلم فیہ ہے۔
اس کے اندر کٹرشیعیت ہے۔
اس روایت کو اس نے اہل مدینہ کے بجائے اہل کوفہ سے نقل کیاہے۔