ہم اپنی اس تحریر میں حجر بن عدی تابعی کے قتل کے ساتھ تعلق رکھنے والی مزید چار ضعیف روایات پیش کرتے ہیں۔
دلیل نمبر: 11
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، قَالَ: دَخَلَ مُعَاوِيَةُ عَلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ: مَا حَمَلَكَ عَلَى قَتْلِ أَهْلِ عَذْرَاءَ: حُجْرٍ وَأَصْحَابِهِ فَقَالَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي رَأَيْتُ قَتْلَهُمْ صَلَاحًا لِلْأُمَّةِ، وَإِنَّ بَقَاءَهُمْ فَسَادٌ لِلْأُمَّةِ فَقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَقُولُ: (سَيُقْتَلُ بِعَذْرَاءَ نَاسٌ يَغْضَبُ اللهُ لَهُمْ، وَأَهْلُ السَّمَاءِ).
معاویہ رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے تو انہوں نے کہا تجھے اس کام پر کس بات نےابھارا کہ تو نے حجر اور ان کے ساتھیوں کو قتل کر دیا ہے؟ معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے ام المومنین میں نے ان کے قتل میں امت کی خیرخواہی سمجھی اور ان کے زندہ رہنے میں امت کے لیے فساد سمجھا عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ عذراء جگہ پر کچھ لوگوں کو قتل کیا جائے گا جس وجہ سے اللہ تعالی اور اہل آسمان غصے میں آ جائیں گے۔
(رواه يعقوب بن سفيان الفسوي في المعرفة والتاريخ(3/320) ومن طريقه البيهقي في دلائل النبوة(6/457) وابن عساكر في تاريخ دمشق(12/226))
یہ روایت سخت ضعیف ہے اس میں موجود راوی ابوالاسود جس کا نام محمد بن عبدالرحمن ہے وہ تبع تابعی ہے وہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے کیسے بیان کر سکتے ہیں؟ لھذا یہ سند منقطع ہے اس روایت پر محدث کبیر البانی رحمہ اللہ تعالیٰ کا تبصرہ پیش خدمت ہے۔
وهذا إسناد ضعيف. رجاله كلهم ثقات، لكنه معضل، فإن أبا الأسود هذا - واسمه: محمد بن عبد الرحمن بن نوفل - من أتباع التابعين، ولذلك قال ابن كثير عقبه في "البداية" (6/55): "وهذا إسناد ضعيف منقطع". وبالانقطاع أعله الحافظ أيضاً في ترجمة حجر من "الإصابة". وأعله الحافظ ابن عساكر بعلة أخرى وهي الوقف، فقال عقبه: "ورواه ابن المبارك عن ابن لهيعة فلم يرفعه". ثم ساق إسناده إليه عن ابن لهيعة: حدثني خالد بن يزيد عن سعيد بن أبي هلال: أن معاوية حج فدخل على عائشة -رضي الله تعالى عنها- فقالت يا معاوية! قتلت حجر بن الأدبر وأصحابه؟! أما والله! لقد بلغني أنه سيقتل بـ (عذراء) سبعة رجال يغضب الله تعالى لهم وأهل السماء. قلت وهذا منقطع أيضاً سعيد بن أبي هلال من أتباع التابعين أيضاً، على أن أحمد وغيره رماه بالاختلاط
یہ سند ضعیف ہے روات تو سارے ثقات ہیں لیکن حدیث معضل ہے (یعنی جس میں سند سے دو راوی مسلسل گر جائیں) اس میں موجود راوی ابو الاسود کا نام محمد بن عبدالرحمن بن نوفل ہے۔جو تبع تابعین میں سے ہیں۔
ابن کثیر رحمہ اللہ البدایہ کے اندر فرماتے ہیں یہ سند ضعیف ہے اور اسی منقطع ہونے کی علت کو حافظ (ابن حجر) نے ، حجر ( بن عدی )کے ترجمہ میں الاصابہ کے اندر ذکر کیا ہے اور حافظ ابن عساکر نے ( ضعف کی دوسری) علت بیان کی ہے وہ یہ کہ یہ روایت موقوف ہے اس روایت کے بعد فرماتے ہیں اس کو ابن مبارک نے ابن لہیعہ سے بیان کیا ہے لیکن مرفوع بیان نہیں کیا پھر اپنی سند کے ساتھ اس روایت کو پیش کیا ، ابن لہیعہ کہتے ہیں مجھے خالد بن یزید نے خبر دی وہ سعید بن ابی ھلال سے بیان کرتے ہیں۔(آگے مذکورہ پوری حدیث)
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ روایت اسی طرح منقطع بھی ہے کیوں کہ سعید بن ابی ھلال تبع تابعین میں سے تھا ( اور وہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیان کر رہا ہے)اسی طرح امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر اختلاط کا حکم بھی لگایا ہے۔
(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة(13/712)(6324))
دلیل نمبر: 12
عن عفان عن ابن علیۃ عن ایوب عن عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ أَوْ غَيْرِهِ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ: (أَقَتَلْتَ حُجْرًا؟) فَقَالَ: (يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، إِنِّي وَجَدْتُ قَتْلَ رَجُلٍ فِي صَلَاحِ النَّاسِ خَيْرًا مِنِ اسْتِحْيَائِهِ فِي فَسَادِهِمْ).
معاویہ رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس مدینہ میں آئے تو انہوں نے فرمایا: تم نے حجر کو قتل کر دیا ہے؟ معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے ام المومنین میں نے ان کے قتل میں لوگوں کی خیرخواہی سمجھی اور ان کے زندہ رہنے میں انکےلیے فساد سمجھا۔
(ذکرہ ابن عساكر في تاريخ دمشق ( ج12 ص229) البدایہ والنہایہ ( ج11 ص242))
یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ ايوب کے استاد کے بارے میں راوی کو شک ہے کہ یہ کون ہے؟عبد الله بن ابی ملیکہ یا کوئی اور؟ یہ کوئی اور ؟ اس کا کوئی پتہ نہیں کون ہیں؟
تاریخ دمشق میں واضاحت ہے کہ اسماعیل یعنی ابن علیہ کو شک ہوا کہ ایوب کس سے بیان کر رہا ہے۔ جب راوی کے بارے میں تعیین نہیں تو روایت کو مردود ہی سمجھا جائے گا۔
دلیل نمبر: 13
حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زُرَيْرٍ الْغَافِقِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، يَقُولُ: (يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ, سَيُقْتَلُ مِنْكُمْ سَبْعَةُ نَفَرٍ بِعَذْرَاءَ, مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ أَصْحَابِ الْأُخْدُودِ فَقُتِلَ حُجْرٌ وَأَصْحَابُهُ).
اخرجه سفيان الفسوي في المعرفة والتاريخ(321 /3/320)
ومن طريقه البيهقي في دلائل النبوة(6/456)،
وابن كثير البداية والنهایہ ( ج9 ص225)وابن عساكر في تاريخ دمشق(12/227)
اس روایت کے بارے میں ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ابْنُ لَهِيعَةَ ضَعِيفٌ
اس روایت میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں ۔
ابن لھیعہ آخر میں مختلط ہوگئے تھے اس وجہ سے کئی علماء نے ان پر سخت جرح کی ہے بحرحال جنہوں نے اس سے اختلاط سے پہلے سنا جیسے ابن مبارک، ابن وہب تو انکی روایت تو مقبول ہے۔ مزید وضاحت تقریب وغیرہ میں دیکھیں۔
دلیل نمبر: 14
انبانا ابو صالح الاخباري قال انبانا عبد الله نبأنا احمد ابن ابراهيم نبأنا حجاج نبأنا ابو معشر قال وراكب اليهم معاويه حتى اتاهم بمرج العذراء فلما اتاهم سلم عليهم عليهم فقال من انت ؟...... فارسل اليهم رجل اعور معه عشرون كفنا فلما راه حجر تفائل فقال يقتل نصفكم ويترك نصفكم قال فجعل رسول يعرضوا عليهم التوبه والبراءه من علي ...الخ.
معاویہ انکی ( یعنی حجر اور انکے ساتھیوں ) کی طرف سوار ہو کر گئے یہاں تک کہ مرج عذراء جگہ پر انکے پاس پہنچے جب پہنچے تو سلام کیا اور ( ہر ایک سے تعارف پوچھا ) تم کون؟.... پھر ایک شخص اعور کو انکے پاس بھیجا جس کے ساتھ بیس کفن تھے جب حجر نے اس کو دیکھا تو شگون لیتے ہوئے فرمایا تم میں سے آدھے قتل کیے جائیں گے اور آدھے چھوڑ دیے جائینگے ، پھر قاصد ان پر توبہ اور علی سے برائت پیش کر رہا تھا( یعنی علی رضی اللہ عنہ سے برائت کرو تو تمہیں چھوڑ دیں )۔
(تاريخ دمشق؛ ج12 ص222)
یہ سند بھی دو وجوہات کی وجہ سے ضعیف ہے۔
پہلی علت:
اس روایت میں ابو معشر نجيح بن عبدالرحمن السندي ہیں ، یاد رہے حجر کا قتل 51 ھ میں ہوا ہے ابو معشر اس واقعے کو کیسے بیان کر سکتے ہیں؟؟ جبکہ اس کی کسی صحابی سے روایت کرنا بھی ثابت نہیں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس نے نافع رحمہ اللہ وغیرہ سے روایت بیان کی ہے امام ذھبی فرماتے ہیں:
رأى أبا أمامة بن سهل بن حنيف ، المتوفى سنة مائة ۔
اس نے صرف ابو امامہ بن سھل رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے جس کی وفات ایک سو ھجری میں ہوئی۔
اس پر کئی علماء نے جرح کی ہے ابن حجر فرماتے ہیں:
ضعيف من السادسة
(التقریب ج1ص559)
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
منکر الحدیث
منکر الحدیث ہیں۔
( التاریخ الکبیر ج9 ص92)
اور بخاری جس کو منکر الحدیث بولیں تو عندالبخاری اس سے روایت لینا بھی جائز نہیں۔
دوسری علت :
ابو صالح قاسم بن سالم الاخباری کی توثیق نہیں ملتی۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔