Defending Sahaba

Article

حجر بن عدی کون ؟ اوراسکےقتل کی اصل حقیقت۔ تیسری قسط



ہم اپنی اس تحریر میں حجر بن عدی تابعی کے قتل کے ساتھ تعلق رکھنے والی مزید پانچ ضعیف روایات پیش کرتے ہیں۔

دلیل نمبر: 06

حدثنا بكر بن محمد الصيرفي بمرو ، ثنا أحمد بن عبيد الله النرسي ، ثنا موسى بن داود الضبي ، ثنا قيس بن الربيع ، عن أشعث ، عن محمد بن سيرين قال حجر بن عدي : لا تغسلوا عني دما ، ولا تطلقوا عني قيدا ، وادفنوني في ثيابي فإنا نلتقي غدا بالجادة .

محمد بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں ہیں کہ حجر بن عدی نے کہا: تم میرے خون کو مت دھونا اور نہ ہی میری بیڑیاں اتارنا اور مجھے میرے انہی کپڑوں میں دفن کرنا کیوں کہ کل ہماری ملاقات اپنے اپنے راستے (نظریے) پر قائم رہتے ہوئے ہوگی۔

(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5979)

یہ روایت ضعیف ہے اس روایت میں اشعث بن سوار راوی ضعیف ہے۔

ابن عدی الکامل میں فرماتے ہیں:

حدثنا بن حماد قال حدثنا عباس ومعاوية عن يحيى قال أشعث بن سوار ضعيف وقال النسائي فيما أخبرني محمد بن العباس عنه قال أشعث بن سوار كوفي ضعيف۔

امام یحییٰ بن معین اور نسائی رحمۃ اللہ علیھما فرماتے ہیں اشعث بن سوار ضعیف ہیں۔

(الکامل لابن عدی؛ ج1 ص371)

أبو حاتم بن حبان البستي:

فاحش الخطأ كثير الوهم۔

یہ بہت بڑی غلطیاں کرتا تھا اور بہت زیادہ وہم کا شکار بندہ تھا۔

(المجروحین؛ ج1 ص171)

أحمد بن حنبل:

ضعيف الحديث

( کتاب العلل؛ ج2ص22)

دوسری جگہ فرمایا:

هو أمثل من محمد بن سالم ولكنه على ذاك ضعيف

یعنی ضعیف ہے۔

(کتاب العلل؛ ج1 ص443)

دلیل نمبر: 07

حدثني علي بن عيسى الحيري ، ثنا الحسين بن محمد القباني ، ثنا إسحاق بن إبراهيم البغوي ، ثنا إسماعيل ابن علية ، عن هشام بن حسان ، عن ابن سيرين ، أن زيادا ، أطال الخطبة ، فقال حجر بن عدي : الصلاة ، فمضى في خطبته ، فقال له : الصلاة ، وضرب بيده إلى الحصى ، وضرب الناس بأيديهم إلى الحصى ، فنزل فصلى ، ثم كتب فيه إلى معاوية فكتب معاوية : أن سرح به إلي ، فسرحه إليه ، فلما قدم عليه قال : السلام عليك يا أمير المؤمنين قال : وأمير المؤمنين أنا ؟ إني لا أقيلك ، ولا أستقيلك ، فأمر بقتله ، فلما انطلقوا به طلب منهم أن يأذنوا له ، فيصلي ركعتين ، فأذنوا له فصلى ركعتين ، ثم قال : لا تطلقوا عني حديدا ، ولا تغسلوا عني دما ، وادفنوني في ثيابي فإني مخاصم قال : فقتل . قال هشام : كان محمد بن سيرين إذا سئل عن الشهيد ذكر حديث حجر .

محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ زیاد نے خطبہ لمبا کر دیا تو حجر بن عدی نے کہا نماز کا وقت ہو چکا ہے زیاد نے اپنا خطبہ جاری رکھا حجر نے دوبارہ کہا کہ نماز کا وقت ہوچکا ہے اور ساتھ اپنا ہاتھ زمین پر مارا ، ساتھ ہی دوسرے لوگوں نے بھی ہاتھ زمین پر مارے، زیاد ممبر سے نیچے اترا اور نماز پڑھادی اور حجر کے بارے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب خط لکھا معاویہ رضی اللہ عنہ نے جوابی خط میں لکھا کہ ان کو میرے پاس بھیج دو زیاد نے ان کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا جب حجر بن عدی معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو کہا السلام علیک یا امیر المؤمنین اور کہا امیرالمومنین میں حاضر ہوں میں نہ تجھ سے کوئی بات کروں گا اور نہ تیری سنوں گا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے قتل کا حکم دے دیا جب ان کو قتل کے لئے لے کر جارہے تھے تو انہوں نے نماز پڑھنے کے لیے کچھ دیر مہلت کا مطالبہ کیا ان کو مہلت دی گئی انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی پھر کہا : میری بیڑیاں مجھ سے نہ اتارنا اور نہ ہی میرے جسم سے میرا خون دھونا مجھے میرے انہی کپڑوں میں دفن دینا کیونکہ ( قیامت کے دن میرا تمہارے ساتھ) جھگڑا ہوگا۔ اس کے بعد ان کو قتل کر دیا گیا ہشام کہتے ہیں کہ محمد بن سیرین سے جب بھی شہید کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپ حجر والا واقعہ سنایا کرتے تھے۔

(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5981)

یہ راوایت ضعیف ہے کیونکہ ھشام بن حسان مدلس ہے ابن حجر رحمہ اللہ اس کو تیسرے طبقہ میں ذکر فرماتے ہیں اور کہا کہ ان پر یہ حکم ابن مدینی، ابوحاتم اور جریربن حازم نے لگایا ہے۔

(الطبقات 129 بتحقیق الشیخ علی زئی رحمہ اللہ)

دلیل نمبر: 08

سمعت أبا علي الحافظ يقول : سمعت ابن قتيبة يقول : سمعت إبراهيم بن يعقوب يقول : قد أدرك حجر بن عدي الجاهلية ، وأكل الدم فيها ، ثم صحب رسول الله - صلى الله عليه وآله وسلم - وسمع منه ، وشهد مع علي بن أبي طالب - رضي الله عنه - الجمل ، وصفين ، وقتل في موالاة علي .

ابراہیم بن یعقوب کہتے ہیں کہ حجر بن عدی نے زمانہ جاہلیت بھی پایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بھی پائی آپ سے سنا بھی اور علی رضی اللہ کے ہمراہ جنگ جمل اور صفین میں شریک بھی ہوئے اور علی رضی اللہ عنہ کی دوستی میں قتل ہوئے۔

(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5983)

یہ روایت بھی ضعیف ہے ابراہیم بن یعقوب جوزجانی سے آگے سند منقطع ہے کیونکہ انکی وافات وفات 269 ھ یا بعض نے 256 ھ لکھی ہے ۔ دیکھیں ( تھذیب الکمال ج1 ص 312) اور انکی عمر تقریباً 75 سال بتائی گئی ہے۔ اور حجر بن عدی کا قتل معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تقریباً 51ھ کو ہوا ہے درمیان میں بہت بڑا فاصلہ ہے۔

دلیل نمبر: 08

سمعت أبا علي الحافظ يقول : سمعت ابن قتيبة يقول : سمعت إبراهيم بن يعقوب يقول : قد أدرك حجر بن عدي الجاهلية ، وأكل الدم فيها ، ثم صحب رسول الله - صلى الله عليه وآله وسلم - وسمع منه ، وشهد مع علي بن أبي طالب - رضي الله عنه - الجمل ، وصفين ، وقتل في موالاة علي .

ابراہیم بن یعقوب کہتے ہیں کہ حجر بن عدی نے زمانہ جاہلیت بھی پایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بھی پائی آپ سے سنا بھی اور علی رضی اللہ کے ہمراہ جنگ جمل اور صفین میں شریک بھی ہوئے اور علی رضی اللہ عنہ کی دوستی میں قتل ہوئے۔

(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5983)

یہ روایت بھی ضعیف ہے ابراہیم بن یعقوب جوزجانی سے آگے سند منقطع ہے کیونکہ انکی وافات وفات 269 ھ یا بعض نے 256 ھ لکھی ہے ۔ دیکھیں ( تھذیب الکمال ج1 ص 312) اور انکی عمر تقریباً 75 سال بتائی گئی ہے۔ اور حجر بن عدی کا قتل معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تقریباً 51ھ کو ہوا ہے درمیان میں بہت بڑا فاصلہ ہے۔

دلیل نمبر: 09

أخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الله بن عتاب العبدي ببغداد ، ثنا أحمد بن عبيد الله النرسي ، ثنا عمرو بن عاصم الكلابي ، ثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن سعيد بن المسيب ، عن مروان بن الحكم قال : دخلت مع معاوية على أم المؤمنين عائشة - رضي الله عنها - فقالت : يا معاوية ، قتلت حجرا وأصحابه ، وفعلت الذي فعلت ، وذكر الحكاية بطولها .

مروان بن حکم کہتا ہے کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس داخل ہوا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا اے معاویہ تم نے حجر اور ان کے ساتھیوں کو قتل کر دیا۔ اور تم نے یہ کام تک کر دیا اور پورا قصہ بیان کیا۔

(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5984)

یہ روایت ضعیف ہے اس روایت کے اندر علی بن زید بن جدعان ہے وہ ضعیف ہے۔

احمد بن حنبل فرماتے ہیں:

علي بن زيد بن جدعان ليس هو بالقوي روي عنه الناس .

یہ قوی نہیں۔

(الجرح والتعدیل؛ ج6 ص186)

ابوزعہ الرازی فرماتے ہیں :

لیس بالقوی۔

قوی نہیں ہے۔

(الجرح والتعدیل؛ ج6ص187)

یحیی بن معین:

لیس بحجۃ

حجت نہیں ہے۔

(الجرح والتعدیل؛ ج6ص187)

دلیل نمبر: 10

اوپر مذکور روایت بحوالہ مسند احمد بھی ذکر کی جاتی ہے لیکن یہ روایت بھی ضعیف ہے اس میں بھی علی بن زید بن جدعان ہی ہے۔

حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ مُعَاوِیَۃَ دَخَلَ عَلٰی عَائِشَۃَ فَقَالَتْ لَہُ: أَمَا خِفْتَ أَنْ أُقْعِدَ لَکَ رَجُلًا فَیَقْتُلَکَ؟ فَقَالَ: مَا کُنْتِ لِتَفْعَلِیہِ وَأَنَا فِی بَیْتِ أَمَانٍ، وَقَدْ سَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((الْإِیمَانُ قَیْدُ الْفَتْکِ۔)) کَیْفَ أَنَا فِی الَّذِی بَیْنِی وَبَیْنَکِ وَفِی حَوَائِجِکِ قَالَتْ: صَالِحٌ، قَالَ: فَدَعِینَا وَإِیَّاہُمْ حَتَّی نَلْقٰی رَبَّنَا عَزَّ وَجَلَّ۔

سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں گئے تو سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان سے کہا: کیا تمہیں اس بات سے ڈر نہیں لگتا کہ میں کسی کو تمہاری گھات میں تمہیں قتل کرنے کے لیے بٹھا دوں اور وہ تمہیں قتل کر دے؟ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ ایسا کام نہیں کریں گی۔ (یا آپ ایسا نہیں کر سکتیں) کیونکہ میں حفظ و امان کی حدود کے اندر ہوں۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ایمان دھوکے سے قتل کرنے سے مانع ہے۔ اچھا اب آپ یہ بتائیں کہ میں آپ کے اور آپ کی ضروریات کے پورا کرنے میں میں کیسا جا رہا ہوں؟ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ٹھیک ہو۔ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: پس آپ ہمیں اور لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑیں،یہاں تک کہ ہم اپنے رب سے جا ملیں۔ (مراد یہ ہے کہ آپ میرے اور لوگوں کے معاملات میں دخل نہ دیا کریں)۔

( مسنداحمد؛ ح 11895 دوسرا نسخہ 16832)

فلاں صاحب اس ضعیف روایت کو بہت زیادہ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حجر کے قتل کی وجہ سے ام المومنین اتنی ناراض ہو گئیں کہ معاویہ کو قتل کی دھمکی دی حالانکہ جیساکہ آپ نے دیکھا یہ سب الزامات ہیں کیونکہ اس روایت میں علی بن زید بن جدعان راوی ضعیف ہے۔

نوٹ:

علامہ شعیب ارناؤط رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس روایت کو صحیح لغیرہ کہا ہے مقصد یہ ہے کہ یہ روایت بذات خود صحیح نہیں بلکہ دوسری روایت اسکو صحیح بنا رہی ہے اور یہ حکم پورے واقعے کی صحت کےلیے نہیں بلکہ شعیب ارناؤط کا مقصد یہ ہے کہ اس واقعے میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے جو حدیث سنائی وہ تو صحیح سند سے ثابت ہے۔ نہ کہ حجر والا پورا یہ واقعہ۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔




عبدالرزاق دل رحماني کے تمام مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔