حجر کے قتل کےساتھ تعلق رکھنےوالی ضعیف روایات:
اکثر لوگوں کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف ابھارنے اور معاذاللہ ظالم ثابت کرنے کے لیے تابعی حجر بن عدی کے واقعے کے حوالے سے ضعیف ترین روایات پیش کی جاتی ہیں اور لوگوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کو صرف حب علی رضی اللہ عنہ کے جرم میں قتل کیا گیا حالانکہ یہ بہت بڑا سفید جھوٹ ہے ہم اپنی اگلی قسطوں میں بیان کرینگے کہ اسکا جرم بغاوت اور مسلمانوں کے اتفاقی کلمہ کو توڑنا تھا اور دوبارہ جنگ والا ماحول قائم کرنا تھا۔
مستدرک للحاکم سے حجر بن عدی والے باب میں موجود احادیث سے یہ مدعا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ وہ سب روایات ضعیف ہیں اور کچھ صحیح ہیں تو وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی حقانیت کو ثابت کر رہی ہیں۔ جیسا کہ آگے وضاحت آ جائے گی۔ ان شاءاللہ! ہم اس قسط میں پانچ وایات پر بحث کرتے ہیں:
دلیل نمبر: 01
حدثنا علي بن حمشاذ العدل ، ثنا إسماعيل بن إسحاق القاضي ، ثنا عارم أبو النعمان محمد بن الفضل ، ثنا حماد بن زيد ، عن محمد بن الزبير الحنظلي ، حدثني مولى زياد قال : أرسلني زياد إلى حجر بن عدي ويقال فيه : ابن الأدبر فأبى أن يأتيه ، ثم أعادني الثانية فأبى أن يأتيه قال : فأرسل إليه ، إني أحذرك أن تركب أعجاز أمور هلك من ركب صدورها .
زیاد کے آزاد کردہ غلام بیان کرتے ہیں کہ مجھے زیاد نے حجر بن عدی کی جانب ان کو بلانے کے لیے بھیجا ان کو ابن ادبر کہا جاتا تھا حجر نے آنے سے انکار کر دیا اس نے دوسری مرتبہ بھیجا لیکن اس بار بھی آنے سے منع کر دیا اس نے تیسری مرتبہ یہ کر بھیجا کہ تم ایسے امور کی دم پر سوار ہونے سے باز آجاؤ جن امور کے سینوں پر سوار ہونے والے بھی ہلاک ہوگئے۔
(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5972)
یہ روایت ضعیف ترین ہے۔
پہلی علت:
محمد بن زبیر الحنظلی متروک الحدیث ہیں۔
محمد بن إسماعيل البخاري رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
منكر الحديث، وفيه نظر
منکر حدیث ہے اور محل نظر ہے۔
(الکامل فی الضعفاء لابن عدی ج7 ص 198)
أبو حاتم الرازي فرماتے ہیں:
ليس بالقوي، في حديثه إنكار
یہ قوی نہیں اسکی حدیث میں نکارت ہے ۔
(الجرح والتعدیل ج1 ص259)
ابن حبان فرماتے ہیں:
منكر الحديث جدا۔
بہت زیادہ منکر الحدیث تھا۔
(المجروحین ج2 ص259)
دوسری علت:
مولی زیاد مجہول ہے اور مجھول کی روایت مردود ہوتی ہے۔
دلیل نمبر: 02
حدثنا أبو علي الحسين بن علي الحافظ ، ثنا الهيثم بن خلف الدوري ، ثنا أبو كريب ، ثنا يحيى بن آدم ، عن أبى بكر بن عياش ، عن الأعمش ، عن زياد بن علاثة قال : رأيت حجر بن الأدبر حين أخرج به زياد إلى معاوية ، ورجلاه من جانب وهو على بعير .
زیاد بن علاثہ کہتے ہیں کہ میں نے حجر بن ادبر کو دیکھا جب زیاد نے ان کو معاویہ کی جانب بھیجا ان کو (وہ اونٹ کے ایک جانب تھے) ان کے پاؤں ایک جانب لٹک رہے تھے۔
(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5973)
یہ روایت ضعیف ہے۔
سلیمان بن مھران اعمش مدلس ہیں اور عن سے بیان کر رہے ہیں۔ ابن حجر رحمہ اللہ اس کو طبقہ ثالثہ میں ذکر کرتے ہیں یعنی اس کی عن والی روایت مردود ہے اسی طرح امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الاعمش يدلس وربما دلس عن ضعيف لا يدري به.
اعمش تدلیس کرتا ہے اور کبھی کبھار ضعیف جس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہوتی اس سے بھی تدلیس کرلیتا ہے۔
(میزان الاعتدال ج2ص224)
ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الاعمش ربما دلس
اعمش کبھی تدلیس کرتا تھا۔
(العلل لابن ابی حاتم ج 1 ص14)
ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں:
الاعمش حافظ يخلط ويدلس
اعمش حافظ تو ہے لیکن تدلیس اور تخلیط کرتا ہے۔
(الجرح والتعدیل ج8 ص179)
دلیل نمبر: 03
حدثنا أبو بكر محمد بن أحمد بن بالويه ، ثنا إبراهيم الحربي ، ثنا مصعب بن عبد الله الزبيري قال : حجر بن عدي الكندي يكنى أبا عبد الرحمن ، كان قد وفد إلى النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - وشهد القادسية ، وشهد الجمل ، وصفين مع علي - رضي الله عنه - قتله معاوية بن أبى سفيان بمرج عذراء ، وكان له ابنان : عبد الله ، وعبد الرحمن قتلهما مصعب بن الزبير صبرا ، وقتل حجر سنة ثلاث وخمسين .
مصعب بن عبداللہ زبیری کہتے ہیں کہ حجربن عدی کی کنیت ابو عبد الرحمن تھی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تھے جنگ قادسیہ ،جنگ جمل اور صفین میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی تھے معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے ان کو مرج عذراء جگہ پر قتل کر دیا اور ان کے دو بیٹے تھے عبداللہ اور عبدالرحمن ان دونوں کو مصعب بن زبیر نے باندھ کر قتل کر دیا اور حجر کو 53 ہجری میں قتل کیا گیا تھا۔
(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5974)
انقطاع کی وجہ سے یہ روایت ضیف ہے کیونکہ اس روایت کے اندر ابو عبداللہ مصعب بن عبداللہ الزبیری ہیں جو کہ 156 ھ میں پیدا ہوئے ہیں اور انکی وفات236 ھ بتائی گئی ہے جبکہ حجر کا قتل 51ھ میں ہوا ہے۔
دلیل نمبر: 04
حدثنا أبو علي الحافظ ، ثنا الهيثم بن خلف ، ثنا أبو كريب ، ثنا معاوية بن هشام ، عن سفيان ، عن أبي إسحاق قال : رأيت حجر بن عدي وهو يقول : ألا إني على بيعتي لا أقيلها ، ولا أستقيلها سماع الله والناس .
ابو اسحاق کہتے ہیں میں نے حجر بن عدی کو دیکھا اللہ تعالی اور لوگوں کو گواہ بناتے ہوئے کہہ رہے تھے خبردار میں اپنی بیعت پر قائم ہوں اور میں نے نہ اس کو توڑا ہے اور نہ توڑنے کی خواہش رکھتا ہوں۔
(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5976)
سفیان مدلس ہے۔
نوٹ:
سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی تدلیس کے حوالے سے میں نے اپنے کچھ موضوعات میں یہ لکھا تھا کہ انکی عنعنہ مقبول ہے لیکن اس حوالے سے فضیلۃ المحدث زبیر علی زئی رحمہ اللہ تعالیٰ کے دلائل پر غور فکر کرنے کے بعد میں نے اپنے سابقہ موقف سے رجوع کر لیا ہے اور سفیان ثوری ضعیف راویوں سے بھی تدلیس کرتا تھا اس وجہ سے وہ طبقہ ثالثہ کے ہی مدلس ہیں اور اسکی عنعنہ والی روایت مردود سمجھی جائے گی۔
(تفصیل طبقات المدلسین ص67 للشیخ علی زئی رحمہ اللہ تعالیٰ )
دلیل نمبر: 05
أخبرني أحمد بن عثمان بن يحيى المقري ، ببغداد ، ثنا عبيد الله بن محمد البريدي ، ثنا سليمان بن أبى شيخ ، ثنا محمد بن الحسن الشيباني ، ثنا أبو مخنف ، أن هدبة بن فياض الأعور ، أمر بقتل حجر بن عدي ، فمشى إليه بالسيف ، فارتعدت فرائصه ، فقال : يا حجر ، أليس زعمت أنك لا تجزع من الموت ، فإنا ندعك فقال : وما لي لا أجزع ، وأنا أرى قبرا محفورا ، وكفنا منشورا ، وسيفا مشهورا ، وإنني والله لن أقول ما يسخط الرب قال : فقتله وذلك في شعبان سنة إحدى وخمسين .
ہدبہ بن فیاض اعور کو حکم دیا گیا کہ حجر بن عدی کو قتل کر دو وہ اپنی تلوار لے کر ان کی جانب بڑھا تو حجر کانپنے لگا ہدبہ بن فیاض نے کہا کیا تم یہ دعوی نہیں کیا کرتے تھے کہ تم موت سے نہیں گھبراتے؟ تاکہ ہم تجھے چھوڑ دیں حجر نے کہا ہاں میں کیوں نہ گھبراؤں کہ مجھے کھودی ہوئی قبر نظر آرہی ہے مجھے بکھرا ہوا کفن دکھائی دے رہا ہے اور تلوار سونتی ہوئی نظر آرہی ہے اور خدا کی قسم میں وہ بات ہرگز نہیں کرسکتا جو اللہ تعالی کو ناراض کر دے راوی کہتے ہیں ہیں اس کے بعد ہدبہ بن فیاض نے ان کو قتل کر دیا یہ واقعہ شعبان کے مہینے میں 51 ھجری کو پیش آیا۔
(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5978)
یہ روایت مردود ترین ہےاسکی سند میں ابو مخنف لوط بن یحیی کذاب ہے اس کے بارے میں امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لوط بن يحيى، أبو مخنف الكوفي الرافضي الإخباري صاحب هاتيك التصانيف يروي عن الصقعب بن زهير ومجالد بن سعيد وجابر بن يزيد الجعفي وطوائف من المجهولين. وعنه علي بن محمد المدائني وعبد الرحمن بن مغراء وغير واحد. قال ابن معين: ليس بثقة. وقال أبو حاتم: متروك الحديث. وقال الدراقطني: أخباري ضعيف. قلت: توفي سنة سبع وخمسين ومائة
مفہوم: لوط بن یحیی رافضی ہے اور وہ ( ضعیف) و مجھول راویوں سے روایتیں بیان کرتا تھا ابن معین نے کہا ثقہ نہیں ،ابوحاتم نے کہا متروک الحدیث ہے دارقطنی نے کہا : ضعیف اخباری راوی ہے۔
(تاريخ الاسلام؛ 9/581)
علامہ ابن جوزی موضوعات میں ایک روایت کو ذکر کر کے لکھتے ہیں:
في حديث ابن عباس أبو صالح و الكلبى وأبو مخنف وكلهم كذابون
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں ابو صالح ،کلبی اور ابو مخنف موجود ہیں اور یہ سارے بہت بڑے جھوٹے ہیں۔
(الموضوعات: 1/406)
اور یاد رکھیں لوط بن یحیی رافضی راوی تھا۔
شیعہ عالم عباس القمّي اسکے بارے میں کہتے ہیں کہ:
من أعاظم مؤرّخي الشيعة
شیعہ کے بڑے مؤرخین میں سے تھا۔
(الكنى والألقاب؛ 155/1)
اب شرم آنی چاہیے کہ کذاب اور مجھول راویوں کی روایات بیان کر کے خال المؤمنین جنتی انسان سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف بھونکنے والوں کو۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔