Defending Sahaba


مناقبِ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ



عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی میں جب ہمیں صحابہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو سب میں افضل اور بہتر ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو۔

صحیح بخاری ؛ رقم:3422

انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر چڑھے تو آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے، پہاڑ لرزنے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں سے اسے مارا اور فرمایا ”احد! ٹھہرا رہ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔“

صحیح بخاری؛ رقم:3686

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر لیٹے ہوئےتھے، رانیں اور پنڈلیاں کھولے ہوئے اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی اسی حال میں باتیں کرتے رہے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی ان کو بھی اجازت دی اس حال میں باتیں کرتے رہے، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور کپڑے برابر کئے، پھر وہ آئے اور باتیں کیں، جب وہ چلے گئے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خیال نہ کیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خیال نہ کیا، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے درست کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں شرم نہ کروں اس شخص سے جس شخص سے فرشتے شرم کرتے ہیں۔“

صحیح مسلم ؛ رقم:6209

کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کا ذکر کیا کہ وہ جلد ظاہر ہو گا، اسی درمیان ایک شخص اپنا سر منہ چھپائے ہوئے گزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شخص ان دنوں ہدایت پر ہو گا“، کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں تیزی سے اٹھا، اور عثمان رضی اللہ عنہ کے دونوں کندھے پکڑ لیے، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رخ کر کے کہا: کیا یہی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں یہی ہیں (جو ہدایت پر ہوں گے)“

سنن ابنِ ماجہ ؛ رقم:111

(ابن سیرین اور کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن مرة بن کعب کی ترمذی کی حدیث نمبر (3704) کے شاہد سے یہ صحیح ہے، جس کی تصحیح امام ترمذی نے کی ہے)