مولائے کریم نے بیعت رضوان والے صحابہ کے متعلق بہت سادہ قانون بیان کردیا ہے۔ اللہ نے ان کے دلوں کا امتحان لیا، ان کو مومن قرار دیا، ان پر سکینت نازل کی اور ان سب سے راضی ہوگیا۔ اس آیت میں بیعت رضوان میں موجود سب صحابہ کو عام کر کے کہا کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا ہے۔ رافضی کہتا ہے : ایسا نہیں ہے۔اس میں دار اص ل صرف ان لوگوں سے راضی ہوا ہے جو مومن تھے۔ جو مومن نہیں تھے ان سے راضی نہیں ہوا۔
استدلال گو کہ بودے پن کی انتہاء پر ہے۔ کیوں کہ قرآن بیعت رضوان میں مومن اور منافق کی تقسیم بالکل نہیں کی، بلکہ فرمایا کہ جنہوں نے وہاں بیعت کی تھی، وہ سب مومن ہی تھے اور ساتھ فرمایا کہ اللہ نے ان کے دلوں کو جان لیا، یعنی دلوں کو جاننے کے بعد کہا کہ جنہوں نے درخت کے نیچے نبی کی بیعت کی، اللہ ان سے راضی ہوگیا۔
اسی لئے آقائے کریمﷺ نے بھی فرمایا تھاکہ بیعت رضوان والوں میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔لیکن رافضی نےیہ نہیں ماننا، اس نے قرآن سے اپنا نیا مطلب ہی لینا ہے۔ تاکہ ہمارا مذہب بچ جائے۔ تو ہم نے ان سے مکالمے میں ان کی اس بات کو بفرض محال تسلیم کرلیا، حالاں کہ یہ تسلیم کرنے والی بات نہیں ہے۔
ہم نے عرض کیا :
''جناب نے فرمایا ہے کہ ان میں سے جو مومن تھے، صرف ان مومنوں سے راضی ہوا ہے۔''
اب فرمائیں، وہ مومن کتنے تھے؟ ایک دو تین یا چار؟ اور ان میں سے منافق کتنے تھے؟ قطعی دلائل کے ساتھ آگاہ کریں !
بولے ! دیکھئے جی، ہر جگہ ہی کچھ منافق کچھ مومن تو ہوتے ہیں نا! عرض کیا : یہ تو قرآن کو بتانا چاہئے تھا کہ وہاں بعض منافقوں نے بھی بیعت کی تھی،ہم ان منافقوں کی بجائے صرف مومنوں سے راضی ہوئے ہیں۔
پانسہ پلٹ گئے ! وہ جی قرآن میں دوسری جگہوں پر منافقوں کا بھی تو ذکر کیا ہے۔ عرض کیا :تویہاں کیوں ذکر نہیں کیا؟ نیز قرآن نے منافقین کی جو صفات بیان کی ہیں ، وہ تو جہاد سے بھاگنے والے لوگ ہوتے ہیں، یہ بیعت رضوان والے مگر موت کی بیعت کر رہے ہیں؟ پھر اللہ کا ہاتھ ان کے اوپر ہے ۔ کیا منافقوں پر بھی اللہ کا ہاتھ ہے؟ نعوذ باللہ!
بولے ! وہ جی اوپر اوپر سے بیعت کر لی ہوگی، عرض کیا : اوپر اوپر سے کر لی ہوگی اور آپ کے کان میں پھونک ماردی ہوگی کہ اوپر اوپر سے کر لی ہے۔ ہے کوئی بات کرنے والی؟
چلو یہ بتائیں، آپ کے خیال کے مطابق کم از کم کتنے مومن ہونے چاہئیں وہاں پر اور کتنے منافق؟ کو ئی تو سو پچاس مومن بھی ہونا چاہئے نا ؟ بولے ہاں شاید زیادہ یا کم بھی ہوں !
ٹھیک ہوگیا، تو اب فرمائیں، جن سے اللہ راضی ہوگیا تھا وہ سو پچاس مومن تھے، اللہ نے ان کو مومن کہہ دیا تھا، پھر انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی بجائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کیوں کر لی؟ نیز یہ بتائیں کہ ان مومنوں کے رستے پر کون ہوا ؟ ہم جو ان کی بیعت سے متفق ہیں یا آپ جو ان مومنوں کی بیعت سے اتفاق نہیں کرتے، بلکہ ان مومنوں کو کافر کہتےہیں؟ رافضی آں باشد کہ چپ نہ شد !