سلف کے فہم پر اعتماد ہماری گھٹی میں شامل کردیا گیا ہے، سو، اسی لئے ہم صحابہ کے سلسلے میں خاموشی اختیار کیا کرتے ہیں، لیکن ایک عرصہ پہلے تک اس خاموشی کی کوئی معقول وجہ سمجھ نہیں آتی تھی، ہم سوچتے تھے کہ آخر صحابہ کے معاملات کو کیوں نہ چھیڑا جائے؟
پھر ہم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، ہم نے یہ جانا کہ مشاجرات میں حد سے زیادہ بحث مباحثہ کرنے والے لوگ، کسی نہ کسی انتہاء پر نکل جاتے ہیں، ان کے اصولوں میں نفاق آجاتا ہے، دوغلے سے ہوجاتے ہیں، تعصب پا ل لیتے ہیں ۔
وہ اصول بناتے ہیں، پھر اپنے ہی اصول کو توڑ دیتے ہیں، ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دشمنوں کو اپنی آنکھوں دیکھا، وہ کچھ ضابطے تراش کر سیدنا علی کے فضائل میں وارد ہونے والی احادیث کو ان پر پرکھتے ہیں اور ضعیف قرار دے دیتے ہیں۔
اور جب اپنی پسندیدہ شخصیات کے فضائل بیان کرنے ہوں تو اپنی ہی کارخانے میں تیار کرد ہ اصولوں کو یکسر ٹھکرا کر آگے نکل جاتے ہیں، بلکہ انتہائی جھوٹی اور بے سند باتوں سے بھی استدلال کر لیتے ہیں۔
ایسا ہی معاملہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دشمنوں کا ہے، مولانا مودودی صاحب کی مثال لیجئے، سیدنا عثمان اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے مثالب ڈھونڈتے وقت راویوں کی چھان پھٹک کو حرام سمجھا، جب کسی نے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا، تو فرمایا کہ میں تو صرف تاریخ سامنے لایا، لیکن جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا معاملہ درپیش ہوا تو حضرت فورا مکر گئے کہ سیدنا علی کا عمومی مزاج ایسا نہیں تھا، حالاں کہ جھوٹی تاریخ نے علی و معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں کو ظالم ہی باور کروایا ہے، نعوذباللہ!
کچھ ایسا ہی قصہ اسحاق جھالوی کا ہوا، اس کے تناقضات گننے بیٹھ جائیے تو تھک جایئے، یہ باب مکمل نہ ہو، مرزا فلاں کے لیکچرز میں تناقض اور نفاق کی بیسیوں امثلہ ملتی ہیں، اس نے اپنے نظریات بیچنے کا وہی سستا طریقہ اپنایا، وہ ایک جھوٹ علماء کی طرف منسوب کر کے صحابہ دشمنی کے بیج بوتا رہا، اس نے اپنے پنکھوں کو اس بٹن پر گھمایا کہ اہل سنت صحابہ کے متعلق احادیث کو چھپاتے تھے، فلاں حدیث بھی چھپا لی، فلاں بھی چھپا لی، اب بندہ پوچھے کہ حضور اگر چھپا لی تھیں تو آپ کو کیسے معلوم ہوگئیں؟
آپ کون سی نئی روایت بیان کرتے ہو، جو کتب احادیث میں شروحات حدیث میں مذکور نہیں ہوئی، علماء کی کتب میں اس کا ذکر اور اس پر تبصرہ نہیں؟ خود ان پر زبیر علی زئی اور علامہ البانی کے حکم کیسے لگ گئے؟ جب کہ وہ چھپا لی گئی تھیں؟
ارے میاں ! روایات چھپائی نہیں تھیں، البتہ علماء عوام الناس کے سامنے ایسے مسائل کو ڈسکس کرنے سے حذر کرتے ہیں، اس کی وجوہات ہمارے معاشرے میں بکھری پڑی ہیں، مودودی صاحب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کے قائل نہیں تھے، لیکن آج ان کے ہزاروں بھکت دن رات سیدنا معاویہ پر طعن درازی کرتے نظر آتے ہیں، مرزا فلاں سیدنا معاویہ کو صحابی کہتا ہے، اس کے پیروکار سیدنا معاویہ کی صحابیت سے انکاری اور ان کو منافق باور کروانے کے درپے ہیں، یہ الگ بات کہ مرزا بھی ایسے ہی اشارے دیتا ہے۔
علماء جانتے تھے کہ عوام کی ضرورت کے موضوع نہیں ہیں، عوام نے ان سے سوائے تعصبات کے کچھ نہیں نکال لینا، عوام کو عمل بتائیں، ان کو ایسی باتوں میں نہ الجھائیں، یہاں تو پڑھے لکھےلوگ بے اصولی کا شکا ر ہوگئے، عوام تو پھر عوام ہے۔
پھر مرزا کے اصولوں کو بھی دیکھئے، اس کے نزدیک بھی صرف وہی باتیں قابل قبول ہیں، جو سیدنا معاویہ کے حق میں بقول اس کے نہیں جاتیں، لیکن یہی مرزا ان کی حمایت کی روایتیں اور اقوال اور احادیث رسول کبھی بھی بیان نہیں کرتا۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا پہلا گروہ جو بحری جہاد کرے گا، جنت میں جائے گا، صحیح البخاری کے مطابق یہ جہا د سیدنا معاویہ کی معیت میں لڑا گیا، لیکن مرزا اس کو بیان نہیں کرے گا، چھپا لے گا اور الٹا اہل سنت کو گالیاں بھی دے گا کہ یہ لوگ احادیث کو چھپاتے ہیں۔
اعمش کی مدلس روایات کو مرزا ضعیف کہتا ہے، لیکن خود ان سے استدلال بھی کرتا ہے۔
آپ دوسرے محاذ کی طرف آجائیں، فیض عالم صدیقی کو دیکھ لیں، اپنا مدعا ثابت کرنے کے لئے بے سند روایات کا سہارا لیا ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق وارد ہونے والی صحیح روایات کو بھی ٹھکرا دیا ہے، اس قسم کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں، جو جابجا اہل سنت کے نظریے کو صحیح ثابت کر رہی ہیں۔
ابھی اگلے روز ایک عزیز، جو شومئی قسمت سے سند نامی کسی چیز سے واقف نہیں، لیکن دھڑلے سے بحث کر رہے تھے کہ دیکھو جناب سیدنا سعد بن عبادہ نے سیدنا ابوبکر کی بیعت نہیں کی، پر انہوں نے سیدنا ابوبکر کے بارے میں صفین بھی تو برپا نہیں کی۔
گویا حد ہوتی ہے، صفین کا سارا مدعا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر ڈال دیا گیا، حالاں کہ آپ رضی اللہ عنہ تو شروع دن سے صلح کے حامی رہے تھے، ان کی طرف لشکر لے کر سیدنا علی گئے، وہ لشکر لے کر نہیں آئے، پھر جنگ میں تحکیم کی دعوت معاویہ رضی اللہ عنہ نے دی، ( مسند احمد : 15975، وسندہ صحیح ) حتی کہ حسن رضی اللہ عنہ جب لشکر لے کر آئے تب بھی صلح کی طرف معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہاتھ بڑھایا۔ ( صحیح البخاری : 2704)
یعنی اس صحابی کو صفین کا مجرم بنایا جارہا ہے، جو سرے سے جنگ چاہتا ہی نہ تھا؟
یہاں کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مقدمہ غلط کرنا چاہتے ہیں، وہ خلیفہ تھے، بیعت نہ کرنے والے سے جنگ کا حق رکھتے تھے، انہوں نے اپنا حق استعمال کیا۔
اس پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کو بھی ابوبکر کی سنت اپنانی چاہئے تھی، جیسے انہوں نے عبادہ رضی اللہ عنہ سے جنگ نہیں کی، آپ بھی اہل شام سے جنگ نہ کرتے۔
تو ایسے لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ جنگ جمل و صفین دو اور دو چار کی گیم نہیں تھی، کہ یوں کر لیتے توں کر لیتے،۔
فتنہ برپا تھا میاں ! اورفتنہ بھی ایسا کہ بڑے بڑے صحابہ فیصلہ کی قوت کھو بیٹھے تھے، صحیح بخاری کی روایت کے مطابق سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو سنانے والوں نے وہ آیات بھی سنائیں تھیں، کہ اگر مومنوں کے دو گروہ قتال کر یں، تو باغی کے ساتھ لڑنے کا حکم ہے، تب ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں یہ عار برداشت کرسکتا ہوں کہ میں نے قرآن کے اس حکم پر عمل نہیں کیا، لیکن مسلمان پر تلوار نہیں اٹھا سکتا۔
کئی صحابہ نے اپنی تلواریں نیام میں ڈال دیں، کئیوں نے بے آباد بستیاں اپنے مسکن بنا لیں کہ ہم اس فتنے میں نہ پڑ جائیں، خود وہاں موجود صحابہ حیران تھے کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟
سیدنا سہل فرماتے تھے کہ ہم نے جب بھی کسی معاملے میں تلواریں اٹھائیں، اللہ نے وہ معاملہ حل کردیا، ہائے مگر صفین، اس کے ایک کونے کو بند کرتے تھے، دوسرا کونہ کھل جاتا تھا۔
جب اس طرح کے حالات برپا ہوچکے ہوں، اور وہ لوگ علم و عقل میں خیر پر ہوں، رسول اللہ ﷺ کے ساتھی ہوں، ان کو چودہ سو سال بعد آنے والے لوگ مشورے دیتے اچھے نہیں لگتے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ قصاص عثمان کے طالب تھے اسی لئے بیعت نہیں کر رہے تھے، اس پر ان کے پیش نظر بھی کئی احادیث رہی تھیں، ایک تو وہی روایت کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا، فتنے کے دور میں سیدنا عثمان کے ساتھی حق پر ہوں گے، اس کے راوی سیدنا نعمان بن بشیر ہیں۔ (فضائل الصحابہ احمد بن حنبل :816، وسندہ صحیح )
اسی طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ کی امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا، مالک بن عامر وہیں پر موجود تھے، انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا معا ذ بن جبل سے سنا ہے ، وہ فرماتے تھے ، حق پر رہنے والا گروہ اہل شام، کا گروہ ہوگا۔(صحیح البخاری : 3181)
سیدنا معاویہ یہ سن کر خوش ہوگئے، یہ وہ روایات ہیں جو بخاری ومسلم میں موجود ہیں، کتب صحاح میں موجود ہیں، لیکن مودودی صاحب، جھالوی اور مرزا فلاں آپ کو نہیں بتائیں گے، کیوں کہ یہ روایات معلوم ہوجانے کے بعد سیدنا معاویہ کی پوزیشن سامنے آجاتی ہے، ان کا موقف واضح ہوجاتا ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ صفین کا معرکہ ایک فتنہ تھا، امت کی بری یادیں اس سے وابستہ ہیں، خدا دوبارہ وہ حالات نہ لائے کہ مسلمان مسلمان سے ٹکرا جائے۔
یقینا ایسے گھمبیر حالات میں صحابہ کو صفین کا مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا، جمل اور صفین کے مجرم سیدنا عثمان کے قاتلین تھے۔
صحابہ اس فتنے میں پڑ گئے تھے، گو کہ صحابہ کی اکثریت اس سے الگ ہی رہی، لیکن جو اس میں شامل ہوئے، ہم ان کے ایمان کی گواہی دیتے ہیں، قرآن ان کے ایمان کی گواہی دے چکا، وکرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان کی گارنٹیاں دی جاچکیں، ان قرآنی گارنٹیوں کے باوجود اگرکوئی ان کے دلوں میں جھانک کر دیکھے، ان کی نیتوں پر شک کرے، تو ہم اس شخص کی عقل پر شک کرنے میں حق بجانب ہیں۔کہ دنیا کا ہر رشتہ مقدس ہوسکتا ہے، لیکن محمد کے صحابہ کے بعد!