دلیل نمبر: 05
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ فَقَالَ هَذَا فُلَانٌ لِأَمِيرِ الْمَدِينَةِ يَدْعُو عَلِيًّا عِنْدَ الْمِنْبَرِ قَالَ فَيَقُولُ مَاذَا قَالَ يَقُولُ لَهُ أَبُو تُرَابٍ فَضَحِكَ قَالَ وَاللَّهِ مَا سَمَّاهُ إِلَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا كَانَ لَهُ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْهُ فَاسْتَطْعَمْتُ الْحَدِيثَ سَهْلًا وَقُلْتُ يَا أَبَا عَبَّاسٍ كَيْفَ ذَلِكَ قَالَ دَخَلَ عَلِيٌّ عَلَى فَاطِمَةَ ثُمَّ خَرَجَ فَاضْطَجَعَ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ قَالَتْ فِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ فَوَجَدَ رِدَاءَهُ قَدْ سَقَطَ عَنْ ظَهْرِهِ وَخَلَصَ التُّرَابُ إِلَى ظَهْرِهِ فَجَعَلَ يَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَهْرِهِ فَيَقُولُ اجْلِسْ يَا أَبَا تُرَابٍ مَرَّتَيْنِ
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا ، ان سے ان کے والد نے کہ ایک شخص حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے یہاں آیا اور کہا کہ یہ فلاں شخص اس کا اشارہ امیر مدینہ کی طرف تھا ، برسر منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برابھلا کہتاہے ، ابوحازم نے بیان کیا کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا کہتاہے ؟ اس نے بتایا کہ انہیں ” ابوتراب “ کہتاہے ، اس پر حضرت سہل ہنسنے لگے اور فرمایا کہ خداکی قسم ! یہ نام تو ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس نام سے زیادہ اپنے لیے اور کوئی نام پسند نہیں تھا ۔ یہ سن کر میں نے اس حدیث کے جاننے کے لیے حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے خواہش ظاہر کی اور عرض کیا اے ابوعباس ! یہ واقعہ کس طرح سے ہے ؟ انہوں نے بیان کیاکہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آئے اور پھر باہر آکر مسجد میں لیٹ رہے ، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ) دریافت فرمایا ، تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ مسجد میں ہیں ۔ آپ مسجد میں تشریف لائے ، دیکھاتو ان کی چادر پیٹھ سے نیچے گرگئی ہے اور ان کی کمر پر اچھی طرح سے خاک لگ چکی ہے ۔ آپ مٹی ان کی کمر سے صاف فرمانے لگے اور بولے ، اٹھو اے ابوتراب اٹھو ( دومرتبہ آپ نے فرمایا )
(صحیح بخاری حدیث نمبر: 3703)
وضاحت:
اس روایت پر غور کریں توکئی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
حضرت سھل رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بندہ جب شکایت لے کر آیا کہ امیر مدینہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا بول رہا ہے حضرت سہل نے استفسار کیا کہ وہ کیا کہتا ہے؟ تو جواب میں اس شخص نے کہا وہ علی رضی اللہ عنہ کو ابوتراب بول رہا ہے۔ سھل رضی اللہ عنہ نےوضاحت کی یہ تو کوئی گالی نہیں ہے اور نہ ہی برا بھلا بولنا ہے۔یہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ نام جو اسے اصل نام سے بھی زیادہ محبوب ہے۔
اس روایت سے پتہ چلا کہ جن راویوں نے (سب) وغیرہ کے الفاظ ذکر کیے ہیں اس سے مراد گالیاں نہیں بلکہ اس طرح کے القابات سے یاد کرنا ہے اور بعض لوگ انکا اصل مطلب سمجھ نہیں سکتے تھے تو اس وجہ سے انکا غلط مفہوم مراد لیتے تھے ۔
دلیل نمبر: 06
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ قَالَ: فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا قَالَ: فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ: أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ: لَعَنَ اللهُ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ سَهْلٌ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا، فَقَالَ لَهُ: أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ، لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ؟ قَالَ: جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ «أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ؟» فَقَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ، فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ «انْظُرْ، أَيْنَ هُوَ؟» فَجَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ، قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ، فَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَيَقُولُ «قُمْ أَبَا التُّرَابِ قُمْ أَبَا التُّرَابِ»
ابو حازم نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا: کہ مدینہ میں مروان کے آل میں سے ایک شخص کو ( کسی جگہ کسی سرکاری عھدہ پر) مقرر کیا گیا تو اس نے سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا بولنے کا حکم دیا۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تو برا بھلا کہنے سے انکار کرتا ہے تو کہہ کہ ابوتراب پر اللہ کی لعنت ہو۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابوتراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ غصہ ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ! علی مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے کہ اے ابوتراب! اٹھ۔ اے ابوتراب! اٹھ۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر: 6229)
وضاحت:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مروان کے خاندان کا ایک شخص ، جس کا نام معلوم نہیں، وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا۔ روایت میں نہ تو اس کا نام مذکور ہے اور نہ ہی اس کا عہدہ نیز یہ وہ واضح ہے کہ وہ گورنر نہیں تھا ، پھر اس نے اپنے بغض کا اظہار برسر منبر نہیں بلکہ نجی محفل میں کیا۔ اس دور میں چونکہ ناصبی فرقہ ظاہر ہو رہا تھا، اس وجہ سے ایسے لوگوں کی موجودگی کا امکان موجود ہے۔
تاہم یہ نہ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقرر کردہ گورنر تھا اور نہ ہی کوئی اور اہم عہدے دار تھا کسی چھوٹے موٹے عہدے پر فائز رہا ہوگا اور اس کے زعم میں وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کروانے چلا تھا لیکن حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے اسے منہ توڑ جواب دے کر خاموش کر دیا، سھل رضی اللہ عنہ کے اس مبارک رد والے عمل پر حکومتی طور پر کوئی رد نہیں کیا گیا، اس سے واضح معلوم ہو رہا ہے وہ ایک کسی ناصبی شخص کا ذاتی عمل تھا معاویہ رضی اللہ عنہ اس سے پاک ہیں۔
نیز اس روایت میں یہ نہیں کہ اس شخص نے یہ کام معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے کیا تھا اسی طرح یہ بھی نہیں کہ اس شخص کی شکایت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچی ہو اور آپ نے صرف نظر کی ہو۔
انتہائی اھم نوٹ:
اس میں موجود مجہول شخص ناصبیت والا مردود ذھن رکھتا تھا جو اھل بیت کی دشمنی میں نمایاں رہے تھے۔ اور انکے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں کچھ لوگ رافضیت والی ذھنیت رکھتے تھے جو معاویہ رضی اللہ عنہ ،عثمان رضی اللہ عنہ تمام بنوامیہ، ازواج مطہرات، دیگر کبار صحابہ، طلحہ زبیر رضی اللہ عنھما وغیرہ سب پر لعن طعن کرتے تھے بلکہ علی رضی اللہ کے لشکر میں بعض تو قاتلین عثمان، طلحہ وزبیر رضی اللہ عنھم بھی موجود تھے۔ اب معاذاللہ ہم اس وجہ سے سیدنا و محبوبنا علی المرتضی شیر خدا، اسد اللہ رضی اللہ عنہ کی ذات کے بارے میں کوئی ذرہ برابر شک نہیں کر سکتے کہ ان کے حکم یا رضامندی سے یہ سب کچھ ہوتا تھا بلکہ علی رضی اللہ عنہ روافض کے اس کام سے برئ الذمہ ہیں۔
یاد رہے ہم اھل سنت ناصبیوں اور رافضیوں دونوں سے بیزار ہیں۔
علامہ قرطبی ابو العباس أحمد بن عمر بن إبراهيم القرطبي رحمه الله تعالى فرماتے ہیں :
" يبعد على معاوية أن يصرح بلعنه وسبّه ، لما كان معاوية موصوفاً به من العقل والدين ، والحلم وكرم الأخلاق ، وما يروى عنه من ذلك فأكثره كذب لا يصح ، وأصح ما فيها قوله لسعد بن أبي وقاص: ما يمنعك أن تسب أبا تراب ؟
وهذا ليس بتصريح بالسب ، وإنما هو سؤال عن سبب امتناعه ليستخرج ما عنده من ذلك ، أو من نقيضه ، كما قد ظهر من جوابه ، ولما سمع ذلك معاوية سكت وأذعن ، وعرف الحق لمستحقه .
وأما التصريح باللّعن ، وركيك القول ، كما قد اقتحمه جهّال بني أمية وسفلتهم ، فحاش معاوية منه ، ومن كان على مثل حاله من الصحبة ، والدّين ، والفضل ، والحلم ، والعلم ، والله تعالى أعلم "
المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم " ( 6 / 278 – 279 )
مفہوم: یہ بات ناممکن ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ صراحت کریں( بولیں) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لعن طعن کرنے کےلیے یا گالیاں دینے کےلیے کیونکہ معاویہ رضی اللہ عنہ متصف تھے اعلی عقل، دین، بردباری اور اچھے اخلاق کے ساتھ جو کچھ ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ اکثر جھوٹ ہے صحیح ثابت نہیں، اس مسئلہ میں ( مخالفین کی طرف سے پیش کردہ دلائل میں سے) سب سے صحیح ترین دلیل سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ۔( اس روایت کے حوالے سے ہم نے تفصیلی بحث قسط نمبر: ایک ، میں کی ہے)
آگے قرطبی فرماتے ہیں: جن روایتوں کے اندر لعن اور نامناسب الفاظ کی صراحت ہے وہ بنی امیہ کے بعد جاہلوں اور ہلکے قسم کے افراد کی طرف سے سرزد ہوئے ہیں معاویہ رضی اللہ عنہ اس سے پاک ہیں ، کیونکہ ان کی جو حالت ہے صحابیت،دین، فضل،بردباری وغیرہ کی ( وہ اسکے منافی ہے)۔
معزز قارئین کرام!
آپ غور فکر کریں تو حقیقت بھی یہی ہے معاویہ رضی اللہ عنہ تو فضیلت علی رضی اللہ عنہ کے قائل تھے وہ کیسے ان پر لعن طعن کر سکتے ہیں؟ یا کرواسکتے ہیں؟ جیساکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا مندرجہ ذیل فرمان ملاحظہ فرمائیں:
جاء أبو مسلم الخولاني وأناس معه إلى معاوية فقالوا له : أنت تنازع عليّاً أم أنت مثله ؟ فقال معاوية : لا والله ! إني لأعلم أن علياً أفضل مني ، وإنه لأحق بالأمر مني ، ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوماً وأنا ابن عمه ؟ وإنما أطلب بدم عثمان ، فأتوه فقولوا له ، فليدفع إلي قتلة عثمان ، وأسلم له "
ابو مسلم الخولانی رحمة اللہ علیہ چند افراد کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے آپ حضرت علی سے جھگڑا کر رہے ہیں کیا آپ ان جیسے ہیں ؟؟؟ تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے اللہ کی قسم نہیں ؛ یقینا میں جانتا ہوں علی رضی اللہ عنہ میرے سے افضل ہیں اور خلافت کے مجھ سے زیادہ حقدار ہیں ؛ لیکن تم نہیں جانتے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کو مظلومانہ انداز میں قتل کیا گیا ہے؟؟ میں ان کے چچا کا بیٹا ہوں میں تو صرف عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ کر رہا ہوں تم حضرت علی کے پاس جاؤ اور اسے کہہ دو کہ وہ قاتلین عثمان کو میرے حوالے کردیں میں اس کی اطاعت کروں گا۔
( ابن عساكر 59 / 132 وذکرہ الذھبی فی السیر ج4 ص300 وسندہ حسن )
جاری۔۔۔۔۔۔۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔