دلیل نمبر: 02
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ، فَذَكَرُوا عَلِيًّا، فَنَالَ مِنْهُ، فَغَضِبَ سَعْدٌ، وَقَالَ: تَقُولُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي» ، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ»
حضرت سعد بن ابو وقاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک بار سیدنا معاویہ ؓ حج کے لئے تشریف لائے تو سعد ؓ ان کے پاس( ملاقات کے لئے) گئے۔ (اثنائے گفتگو میں) حضرت علی ؓ کا تذکرہ چھڑ گیا۔ سیدنا معاویہ ؓ نے ان کے متعلق کچھ تنقیدی الفاظ کہے۔ سعد ؓ کو غصہ آگیا اور فرمایا: آپ ایسے شخص کے بارے میں یہ بات کہہ رہے ہیں جس کے متعلق میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے:’’ جس کا مولیٰ میں ہوں، علی ؓ بھی اس کا مولیٰ( دوست) ہے۔‘‘ اور میں نے آپ ﷺ سے سنا کہ آپ نے ( علی ؓ سے ) فرمایا:’’ تیرا مجھ سے وہی تعلق ہے جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام سے تھا، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اور میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا:’’آج میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ سے اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ (اور وہ جھنڈا علی ؓ کو ملا)۔
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 121)
اولا:
یہ سند بھی ضعیف ہے۔
پہلی علت:
عبدالرحمن بن سابط کا سعد رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا فرمان ہے:
قيل ليحيى: سمع عبد الرحمن بن سابط من سعد؟ قال: من سعد ابن إبراهيم؟. قالوا: لا، من سعد بن أبى وقاص؟ قال: لا. قيل ليحيى: سمع من أبى أمامة؟ قال: لا. قيل ليحيى: سمع من جابر؟ قال: لا، هو مرسل.
كان مذهب يحيى، أن عبد الرحمن بن سابط يرسل عنهم، و لم يسمع منهم.
( التاریخ یحییٰ بن معین جزء الاول ص112)
یعنی : عبدالرحمن بن سابط نے سعد بن ابی وقاص ، ابو امامۃ اور جابر رضی اللہ عنھم سے نہیں سنا۔
نوٹ:
جابر رضی اللہ عنہ سے اسکا سماع ثابت ہے۔
جیساکہ امام ابن ابي حاتم الرازي الجرح و التعديل کے اندر فرماتے ہیں :
عبد الرحمن بن سابط الجمحي مكي روى عن عمر رضي الله عنه مرسلا وعن جابر بن عبد الله متصلا
دیگر کئی علماء کے اقوال بھی اس حوالے موجود ہیں- اس کی صراحت اس روایت کے اندر موجود ہے جسے ابن العدیم نے ذکر کیا ہے۔
من طریق يعقوب بن سفيان حدثنا محمد بن عبدالله بن نمير حدثنا أبي حدثنا ربيع بن سعد عن عبدالرحمن بن سابط قال :" كنت مع جابر ، فدخل حسين بن علي رضي الله عنهما فقال جابر :من سرّه أن ينظر إلى رجل من أهل الجنة فلينظر إلى هذا ، فأشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔
اخرجہ ابن العدیم فی کتاب( بغية الطلب فی تاریخ حلب)(6\2583)
وصحح الالبانی ھذالحدیث ( السلسلۃ الصحیحۃ :4003 ) وأخرجه ابن حبان في صحيحه بدون تصريح السماع: 6975 بترتیب ابن بلبان
دوسری علت:
اسکی سند میں ابو معاویہ محمد بن خازم ہیں انکے بارے میں ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثقۃ احفظ الناس لحدیث الأعمش وقد یھم فی غیرہ۔
ثقۃ ہیں اعمش کی حدیث کو زیادہ رکھنے والا ہے جبکہ باقی راویوں سے وھم کا شکار ہو جاتا تھا۔
( التقریب، ت:5841)
اور یہاں ابو معاویہ اعمش سے بیان نہیں کر رہے لھذا وھم کا شبہ ہے، اسی وجہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں اسکی تفرد والی وہ روایات ذکر کی ہیں جو اس نے اعمش سے بیان کی ہیں باقی متابعت میں ذکر کی ہیں۔
جیساکہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری کے مقدمہ میں اس بات کی وضاحت فرماتے ہیں۔ امام ذھبی فرماتے ہیں:
ثبت فی الاعمش
وہ اعمش سے روایت کرنے میں ثبت ہے۔
( الکاشف:532)
ثانیاً:
اس ضعیف روایت میں بھی گالیوں کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔
دلیل نمبر: 03
کیامعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نکو حکم دیا کہ حضرت علی کو گالیاں دیں؟
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِالْحُرِّ بْنِ الصَّيَّاحِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَخْنَسِ ، قَالَ : خَطَبَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَنَالَ مِنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَامَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ ، فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ : " النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ، وَأَبُو بَكْرٍ فِي الْجَنَّةِ، وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلِيٌّ فِي الْجَنَّةِ، وَطَلْحَةُ فِي الْجَنَّةِ، وَالزُّبَيْرُ فِي الْجَنَّةِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي الْجَنَّةِ، وَسَعْدٌ فِي الْجَنَّةِ ". وَلَوْ شِئْتُ أَنْ أُسَمِّيَ الْعَاشِرَ.
عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ہمیں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے کچھ تنقيدى جملے کہے تو حضرت سعید رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے۔۔۔۔ آگے پوری حدیث سنائی دس جنتی صحابہ والی جس میں علی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ موجود ہے۔
(مسند أحمد:1631)
اولا:
اس روایت کی سند ضعیف ہے اس میں موجود راوی عبدالرحمن بن اخنس مجہول الحال ہے جیساکہ ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لایعرف
( الکاشف ص:356)
ابن حجر فرماتے ہیں:
مستور من الثالثۃ
( التقریب ت:3795)
جب روایت کی سند ضعیف ہے تو عداوت صحابہ میں پیش کردہ کاوش مردو ہو گئی۔
ثانیاً:
اس ضعیف حدیث میں گالیوں کا کوئی تذکرہ نہیں ہے بس یہ الفاظ ہیں( فنال منہ ) ان کا تذکرہ کیا انکے موقف واجتھاد پر تنقید وتردید کی۔
دلیل نمبر: 04
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ ، قَالَ حُصَيْنٌ : أَخْبَرَنَا، عَنْ هِلَالِ بْنِ يِسَافٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ظَالِمٍ الْمَازِنِيِّ قَالَ: لَمَّا خَرَجَ مُعَاوِیَۃُ مِنَ الْکُوفَۃِ اسْتَعْمَلَ الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ، قَالَ: فَأَقَامَ خُطَبَائَ یَقَعُونَ فِی عَلِیٍّ، قَالَ: وَأَنَا إِلَی جَنْبِ سَعِیدِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ، قَالَ: فَغَضِبَ فَقَامَ فَأَخَذَ بِیَدِی فَتَبِعْتُہُ، فَقَالَ: أَلَا تَرٰی إِلٰی ہٰذَا الرَّجُلِ الظَّالِمِ لِنَفْسِہِ الَّذِی یَأْمُرُ بِلَعْنِ رَجُلٍ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ، فَأَشْہَدُ عَلَی التِّسْعَۃِ أَنَّہُمْ فِی الْجَنَّۃِ، وَلَوْ شَہِدْتُ عَلَی الْعَاشِرِ لَمْ آثَمْ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا ذَاکَ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((اثْبُتْ حِرَائُ فَإِنَّہُ لَیْسَ عَلَیْکَ إِلَّا نَبِیٌّ أَوْ صِدِّیقٌ أَوْ شَہِیدٌ۔)) قَالَ: قُلْتُ: مَنْ ہُمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ((وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِیٌّ وَالزُّبَیْرُ وَطَلْحَۃُ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ وَسَعْدُ بْنُ مَالِکٍ۔)) قَالَ ثُمَّ سَکَتَ قَالَ: قُلْتُ: وَمَنِ الْعَاشِرُ؟ قَالَ: قَالَ: أَنَا۔ وَفِیْ لَفْظٍ: اِھْتَزَّ حِرَائُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((اثبُتْ حِرَائُ…۔)) فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ۔
عبداللہ بن ظالم مازنی سے مروی ہے کہ جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ سے باہر تشریف لے گئے تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کر گئے، انہوں نے بعض ایسے خطباء کا تقرر کر دیا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرتے تھے۔ عبداللہ بن ظالم کہتے ہیں کہ میں سعید بن زید کے پہلو میں بیٹھاتھا۔ وہ شدید غصے میں آئے اور اٹھ گئے۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا تو میں بھی ان کے پیچھے چل دیا۔ انہوں نے کہا: کیا تم اس آدمی کو دیکھ رہے ہو جو اپنے اوپر ظلم کر رہا ہے اور ایک جنتی آدمی پر لعنت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ میں نو آدمیوں کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ سب جنتی ہیں۔ اور اگر میں دسویں کے بارے میں بھی گواہی دے دوں کہ وہ بھی جنتی ہے تو میں گنہگار نہیں ہوں گا۔ عبداللہ کہتے ہیں: میں نے ان سے دریافت کیا:وہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: اے حرا! تو سکون کر جا، تجھ پر اس وقت جو لوگ موجود ہیں وہ یا تو نبی ہیں یا صدیق یا شہید۔ میں نے دریافت کیا: یہ کون کون تھے؟ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول، سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا زبیر، سیدنا طلحہ، سیدنا عبدالرحمن بن عوف اور سیدنا سعد بن مالک، اس سے آگے وہ خاموش رہے۔ میں نے پوچھا اور دسواں آدمی کون تھا؟ انھوں نے کہا: میں خود۔ دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ حراء خوشی سے حرکت کرنے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے حراء، سکون کر۔
(مسند احمد:11592. دوسرا نسخہ :1644 و رواہ ابوداؤد:4648 وغیرہ)
اولا :
یہ راویت منقطع یعنی ضعیف ہے، جیسا کہ اسکے بارے میں محقق اہل حدیث، وکیل صحابہ ابویحییٰ نورپوری حفظه الله فرماتے ہیں:
(سب سے پہلےیہ جو دلیل سنن ابی داود (4648) سے ہے اس کی سند میں انقطاع ہے، ہلال بن یساف نے عبد اللہ بن ظالم مازنی سے نہیں سنا،شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اور ہمارے استادِ محترم علامہ غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ بھی اس کو صحیح سمجھتے تھےکیونکہ یہ علت ان کے سامنے نہیں آئی تھی، میں نے جب تحقیق کی تو میرے سامنے یہ بات آئی اور میں نے یہ بات شیخ امن پوری صاحب حفظہ اللہ کے سامنے پیش کی کہ امام نسائی رحمہ اللہ (سنن الکبرٰی للنسائی:8135)میں خودفرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ہلال بن یساف نےعبد اللہ بن ظالم مازنی سے نہیں سنا، اس میں ایک راوی گرا ہوا ہےاور ان کی یہ بات درست بھی ہے کیونکہ دوسری سند میں ہلال کےاور مازنی کے درمیان ایک مجہول شخص کا واسطہ آتا ہے،لہذا آپ کی یہ پہلی دلیل تو ہوگئی ضعیف، جب یہ روایت ہی منقطع ہے تو آپ کا سارا مقدمہ خود ہی ڈھیر ہو گیا ہے،اب آپ کے لیے یہ لازم ہے کہ آپ اس روایت کی سند کو صحیح ثابت کریں یا اگر آپ انصاف پسند ہیں تو اس جھوٹ سے اعلانیہ رجوع کریں۔
اس سے اگلی کاروائی آپ نے یہ کی کہ آپ نے تحریف کرتے ہوئے ترجمے میں ڈنڈی ماری ، آپ نے ترجمہ کرتے ہوئے کہا کہ” جب معاویہ مغیرہ کو ملنے آیاتو معاویہ نے مغیرہ کو خطبے کے لیے کھڑا کیااور اس نے حضرت علی کے اوپر لعنت کی۔”
ہم کہتے ہیں کہ” لعنۃ اللہ علی الکاذبین”سنن الکبریٰ للنسائی کی اس ضعیف روایت کے الفاظ ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
لَمَّا قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْكُوفَةَ أَقَامَ مُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ خُطَبَاءَ يَتَنَاوَلُونَ عَلِيًّا
جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ آئےتو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نےکچھ خطباء مقرر کیئے، وہ خطیب جو تھےسیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرتے تھے۔
ہم بتا چکے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہےایسی کوئی بات قطعا ثابت نہیں ہے۔
الفاظ بلکل برعکس ہیں ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو کھڑا کرنا بلکل ثابت نہیں ہےبلکہ الفاظ یہ ہیں کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نےکچھ خطباء مقرر کیئےاور آپ کا یہ جھوٹ باندھنا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ وہاں موجود تھے اور اپنی موجودگی میں سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے لعنت کروائی، استغفرا للہ ۔یہ جھوٹ ہے،اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو) انتہی کلام الشیخ۔۔۔ حفظہ اللہ تعالیٰ۔
ثانیاً:
امام المحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے بارے فرماتے ہیں صحیح نہیں ہے، التاریخ الکبیر میں اس روایت میں موجود راوی عبداللہ بن ظالم کے ترجمہ میں فرماتے ہیں:
عبداللہ بن ظالم عن سعید بن زید عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ( عشرۃ فی الجنۃ)
بخاری رحمہ اللہ آگے فرماتے ہیں:
ولم یصح ولیس لہ حدیث الا ھذا وحدیث بحسب اصحابی القتل
اس کی روايت صحیح نہیں ہے، اسکی دو ہی حدیثیں ہیں ایک یہ دوسری ( بحسب أصحابی القتل)۔
(التاریخ الکبیر ج5 ص 31 رقم الترجمۃ6437)
امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ اسے اپنے کتاب الضعفاء میں ذکر کرتے ہوئے بخاری کے اس فرمان کو ذکر کرتے ہیں۔
( الضعفاء العقیلی ج2 ص267 رقم الترجمۃ:827)
اسی طرح ابن عدی رحمہ اللہ الکامل فی الضعفاء میں اس کو ذکر کرتے ہیں اور امام بخاری کے مذکورہ فرمان کو لاتے ہیں، اسی طرح محدث ازدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں لایتابع علیہ۔
نوٹ:
عبداللہ بن ظالم المازنی کی یہ روایت تو ضعیف ہے جبکہ راجح قول کے مطابق وہ صدوق ہیں کما قال ابن حجر فی التقریب صدوق لينه البخاري ( التقریب:3400) وقال ابو حاتم فی الجرح والتعدیل: صدوق۔واللہ اعلم۔
معزز قارئین کرام!
اس مذکورہ حدیث کی اسنادی حیثیت آپ نے دیکھ لی، جب روایت ضعیف ہے تو صحابہ دشمنی میں کی گئی پوری کوشش ناکام ہو گئی۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔