روافض سے متاثر کچھ لوگ عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے یہ جھوٹی افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ خود اور انکے ساتھی معاذ اللہ علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتے تھے۔
اس حوالے سے روافض کی طرف سے جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں انکی حقیقت پیش خدمت ہے۔
دلیل نمبر: 01
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ - وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ - قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ - عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ؟ فَقَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَنْ أَسُبَّهُ، لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ، خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللهِ خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي» وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ» قَالَ فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ: «ادْعُوا لِي عَلِيًّا» فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ، فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ وَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ، فَفَتَحَ اللهُ عَلَيْهِ، وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ} [آل عمران: 61] دَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي»
بکیر بن مسمار نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے ،انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا،کہا:آپ کو اس سے کیا چیز روکتی ہے کہ آپ ابوتراب(حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو براکہیں۔انھوں نے جواب دیا:جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان(حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے کہی تھیں،میں ہرگز انھیں برا نہیں کہوں گا۔ان میں سے کوئی ایک بات بھی میرے لئے ہوتو وہ مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ پسند ہوگی،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھا،آپ ان سے(اس وقت) کہہ رہے تھے جب آپ ایک جنگ میں ان کو پیچھے چھوڑ کر جارہے تھے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا تھا:اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مجھے عورتوں اوربچوں میں پیچھے چھوڑ کرجارہے ہیں؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:"تمھیں یہ پسند نہیں کہ تمھارا میرے ساتھ وہی مقام ہو جوحضرت ہارون علیہ السلام کاموسیٰ علیہ السلام کےساتھ تھا،مگر یہ کہ میرے بعد نبوت نہیں ہے۔"اسی طرح خیبر کے دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سناتھا:"اب میں جھنڈ ا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا ر سول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرتے ہیں۔"کہا:پھر ہم نے اس بات (مصداق جاننے) کے لئے اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر(ہرطرف) دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"علی کو میرے پاس بلاؤ۔"انھیں شدید آشوب چشم کی حالت میں لایا گیا۔آپ نےان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اورجھنڈا انھیں عطافرمادیا۔اللہ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کردیا۔اورجب یہ آیت اتری:"(تو آپ کہہ دیں:آؤ) ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں کو بلالیں۔"تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اورحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا:"اے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں۔"
صحیح مسلم حدیث نمبر: 6220
وضاحت:
اس روایت میں (سب )کے الفاظ ہیں معترض اس کا معنی کرتے ہیں (گالیاں دینا )حالانکہ اس لفظ کا ہر وقت یہ معنی نہیں ہوتا۔
جبکہ حقائق یہ ہیں کہ جب ایک شخص ، دوسرے کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اس پر رد کرے اور اسکے موقف کی تنقید کرے اور اپنے دلائل پیش کرے، تو اسے بھی ’سبّ‘ کہا جاتا ہے اور معاویہ رضی اللہ کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اجتھادی خطاء پر تصور کرتے تھے اس وجہ سے کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے اور معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے جلدی قصاص لینے کا مطالبہ کر رہے تھے اور یاد رہے یہ صرف ایک معاویہ رضی اللہ عنہ کا مطالبہ نہیں تھا بلکہ دیگر کئ ایک کبار صحابہ کا بھی تھا۔ جن میں ام المؤمنین عائشہ، طلحہ ،زبیر رضی اللہ عنھم وغیرہ بھی شامل ہیں۔
( سب) کی اس معنی کی طرف اشارہ بخاری شریف کی اس روایت میں موجود ہے کہ جب حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما باغ فدک کے مسئلے میں آپس میں بہت زیادہ اختلاف اور ٹکراؤ کرنے کے بعد، فیصلہ کروانے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تھے اس روایت کے الفاظ ہیں۔
فاستب علي وعباس
عباس اور علی نے ایک دوسرے پر( سب) کیا یعنی ایک دوسرے کی ذات اور موقف کی تنقید کی اور رد کیا۔
بخاری حدیث: 4033
وضاحت:
نعوذ باللہ اب کوئی رافضی یا نیم رافضی کہ سکتا ہے کہ عباس رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ نے ایک دوسرے کو گالیاں دیں!
عباس یا علی رضی اللہ عنھما میں سے کس پر حکم لگائیں گے؟ چچا پر یا بھتیجے پر؟ کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے چچا ( یعنی باپ) کو گالیاں دے رہے تھے؟ معا ذاللہ ۔ کیونکہ چچا باپ کے قائم مقام ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أن عم الرجل صنو أبیہ۔ رواہ مسلم۔
( سب ) کا یہ معنی (کسی کو غلطی پر تصور کرتے یا دیکھتے ہوئے اس پر تنقید کرنا ) دیگر کئی دلائل صحیحہ سے ثابت ہے۔جیسا کہ تبوک کے سفر کے بارے میں تفصیلی روایت مسلم میں موجود ہے آپ نے فرمایا تھا:
«إِنَّكُمْ سَتَأْتُونَ غَدًا، إِنْ شَاءَ اللهُ، عَيْنَ تَبُوكَ، وَإِنَّكُمْ لَنْ تَأْتُوهَا حَتَّى يُضْحِيَ النَّهَارُ، فَمَنْ جَاءَهَا مِنْكُمْ فَلَا يَمَسَّ مِنْ مَائِهَا شَيْئًا حَتَّى آتِيَ» فَجِئْنَاهَا وَقَدْ سَبَقَنَا إِلَيْهَا رَجُلَانِ، وَالْعَيْنُ مِثْلُ الشِّرَاكِ تَبِضُّ بِشَيْءٍ مِنْ مَاءٍ، قَالَ فَسَأَلَهُمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «هَلْ مَسَسْتُمَا مِنْ مَائِهَا شَيْئًا؟» قَالَا: نَعَمْ، فَسَبَّهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ لَهُمَا مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَقُولَ. قَالَ: ثُمَّ غَرَفُوا بِأَيْدِيهِمْ مِنَ الْعَيْنِ قَلِيلًا قَلِيلًا، حَتَّى اجْتَمَعَ فِي شَيْءٍ، قَالَ وَغَسَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ، ثُمَّ أَعَادَهُ فِيهَا، " فَجَرَتِ الْعَيْنُ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ أَوْ قَالَ: غَزِيرٍ - شَكَّ أَبُو عَلِيٍّ أَيُّهُمَا قَالَ - حَتَّى اسْتَقَى النَّاسُ، ثُمَّ قَالَ «يُوشِكُ، يَا مُعَاذُ إِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ، أَنْ تَرَى مَا هَاهُنَا قَدْ مُلِئَ جِنَانًا»
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کہ کل تم لوگ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تبوک کے چشمے پر پہنچو گے اور دن نکلنے سے پہلے نہیں پہنچ سکو گے اور جو کوئی تم میں سے اس چشمے کے پاس جائے، تو اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے جب تک میں نہ آؤں۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم اس چشمے پر پہنچے اور ہم سے پہلے وہاں دو آدمی پہنچ گئے تھے۔ چشمہ کے پانی کا یہ حال تھا کہ جوتی کے تسمہ کے برابر ہو گا، وہ بھی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں آدمیوں سے پوچھا کہ تم نے اس کے پانی میں ہاتھ لگایا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو برا کہا (اس لئے کہ انہوں نے حکم کے خلاف کیا تھا) اور اللہ تعالیٰ کو جو منظور تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سنایا۔ پھر لوگوں نے چلوؤں سے تھوڑا تھوڑا پانی ایک برتن میں جمع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اور منہ اس میں دھویا، پھر وہ پانی اس چشمہ میں ڈال دیا تو وہ چشمہ جوش مار کر بہنے لگا اور لوگوں نے (اپنے جانوروں اور آدمیوں کو) پانی پلانا شروع کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ! اگر تیری زندگی رہی تو تو دیکھے گا کہ یہاں جو جگہ ہے وہ گھنے باغات سے لہلہااٹھے گی۔"
وضاحت:
اس روایت میں الفاظ ہیں جلدی کرنے والے دو افراد کو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے( سب) کیا ، اب ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی شخص یہ بدگمانی نہیں کر سکتا کہ آپ نے انہیں معاذ اللہ گالیاں دی ہوں گی۔ اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ آپ نے ان پر تنقید فرمائی ہو گی اور انہیں اپنی اصلاح کا کہا ہو گا۔
جیساکہ ایک اور حدیث میں اس معنی کی طرف اشارہ موجود ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَبَبْتُهُ، فَاجْعَلْ ذَلِكَ لَهُ قُرْبَةً إِلَيْكَ يَوْمَ القِيَامَةِ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ ! میں نے جس مومن کو بھی ( سب کیا ہو) یعنی برابھلا کہا ہو تو اس کے لئے اسے قیامت کے دن اپنی قربت کا ذریعہ بنا دے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر: 6361
اس حدیث کے عربی الفاظ پر غور کریں تو سب الفاظ کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی ہو رہی ہے، اب کیا کوئی گمان کر سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گالی دی تھی ۔ نستغراللہ، نعوذ باللہ۔
اسی طرح (سب ) کا لفظ ہر جھوٹے بڑے اختلاف کےلیے بھی آتا ہے جیساکہ صحیح بخاری حدیث: (2411)میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
اسْتَبَّ رَجُلاَنِ رَجُلٌ مِنَ المُسْلِمِينَ وَرَجُلٌ مِنَ اليَهُودِ
مسلمانوں میں سے ایک شخص اور یہودیوں میں سے ایک شخص نے ایک دوسرے کو (سب) کیا۔
اب وہ ( سب ) والے جملے کیا تھے؟ اس کی وضاحت اسی حدیث کے اگلے جملے میں موجود ہے:
قَالَ المُسْلِمُ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُحَمَّدًا عَلَى العَالَمِينَ، فَقَالَ اليَهُودِيُّ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى العَالَمِينَ
مسلمان نے کہا: کہ مجھے اس ذات کی قسم جس نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے، اور یہودی نے کہ مجھے اس ذات کی قسم کہ جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ۔
اس حدیث میں ان دو مذکورہ جملوں کو سب کہا گیا ہے ایک جملہ مسلمان کا تھا اور دوسرا یہودی کا، کیا کوئی ان جملوں کا معنی گالیاں کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ لہذا حدیث نے ہم کو یہ بتایا کہ کبھی کبھار (سب) کا معنی تنقید کرنا بھی ہوتا ہے،یا دلائل کے اعتبار سے ایک دوسرے پر رد کرنا بھی ہوتا ہے۔
معزز قارئین!
مذکورہ وضاحت سے پتہ چلتا ہے کہ جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کی طرف منسوب ( سب) لفظ کا ترجمہ گالیاں کرتے ہیں وہ صرف اپنے دل کی بھڑاس نکالتےہیں اور ان کے دِل بغض صحابہ سے بھرے ہوئے ہیں۔
مذکورہ وضاحت کے سمجھنے کے بعد اس پیش کردہ روایت کی وضاحت پیش خدمت ہے۔
اولا:
یہاں مراد یہ ہےکہ معاویہ رضی اللہ عنہ ، سعد رضی اللہ عنہ سے کہنا چاہتے تھے کہ آپ بھی یہ موقف بیان کریں کہ قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں ، علی رضی اللہ عنہ کا اجتہاد ٹھیک نہیں اور علی رضی اللہ عنہ پر رد کریں تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل بتائے ان میں یہ بھی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ہارون علیہ السلام کی جگہ دی ، جس کا مطلب ہے وہ بلند پائے کے عالم ہیں، وہ اجتہاد میں غلط نہیں ہو سکتے۔ جیساکہ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
أن معناه : ما منعك أن تخطئه في رأيه واجتهاده ، وتظهر للناس حسن رأينا واجتهادنا ، وأنه أخطأ ؟
معاویہ نے سعد رضی اللہ عنھما سے کہا کہ :کیا مسئلہ ہے کہ آپ علی رضی اللہ عنہ کے رائے اور اجتہاد کو خطاء قرار نہیں دیتے؟؎؟ اور لوگوں کے سامنے ہمارے رائے اور اجتہاد کی اچھائی ظاہر نہیں کرتے؟ اور کیوں بیان نہیں کرتے کہ علی رضی اللہ عنہ خطاء پر ہیں؟
ثانیاً:
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فقول معاوية هذا ليس فيه تصريح بأنه أمر سعدا بسبه ، وإنما سأله عن السبب المانع له من السب ، كأنه يقول : هل امتنعت تورعا ، أو خوفا ، أو غير ذلك ، فإن كان تورعا وإجلالا له عن السب فأنت مصيب محسن ، وإن كان غير ذلك فله جواب آخر ۔
معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس فرمان میں کوئی صراحت نہیں ہیں کہ انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو برا بھلا بولنے کا حکم دیا تھا بلکہ پوچھا تھا کہ آپ تنقید کیوں نہیں کرتے؟ گویا کہ کہا : کیا آپ خوف اور ڈر کی وجہ سے تنقید نہیں کرتے يا تورعا ( احتیاطا) نہیں کرتے؟ یاں کوئی دوسرا مسئلہ ہے؟ اگر آپ علی رضی اللہ عنہ کے اجلال ( عزت)کی وجہ سے اور تورعا ( احتیاطا) تنقید نہیں کرتے تو آپ درست اور اچھا کرنے والے ہیں،اگر یہ نہیں تو جواب دوسرا ہوگا۔
ثالثا:
اس روایت میں موجود ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید یعنی علمی رد کا حکم دیا لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جب انکار کر دیا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ پر کوئی سختی نہیں کی، نہ ہی مجبور کیا ! بلکہ خاموش ہو گئے۔
رابعاً:
اس روایت کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے بیچ میں موجود تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کر رہے تھے جبکہ حضرت سعد نہیں کر رہے تھے اور ان پر رد کرنے سے عاجز تھے حضرت معاویہ نے پوچھ لیا آپ کیوں نہیں تنقید کر رہے؟ تو اس پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان تنقید کرنے والوں پر رد کرتے ہوئے فضائل علی رضی اللہ عنہ بیان کرنا شروع کر دیے۔ اشار الیہ النووی بقولہ
لعل سعدا قد كان في طائفة يسبون فلم يسب معهم ، وعجز عن الإنكار ، وأنكر عليهم ، فسأله هذا السؤال
خامسا:
اگر بالرض والمحال سب کا معنی گالیاں مان لیں تو ، کیا ہم جنتی شہزادوں حسن، حسین رضی اللہ عنھما اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دیگر بیٹوں سے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ خاموشی سے سنتے رہتے تھے ! کوئی رد نہ کیا! معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اپنا امیر تسلیم کیا! یہ کیسے ممکن ہے کہ جو شخص علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتا ہو حسنین رضی اللہ عنھما اس سے وظائف وصول کرتے ہوں ؟ اسے امیر المؤمنین اور مسلمانوں کا قائد اعلی مانتے ہوں؟ نعوذ باللہ۔ جبکہ آج کا رافضی ونیم رافضی تو معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف زبان درازی کر رہا ہے!
جاری۔۔۔۔۔۔۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔