Defending Sahaba

Article

حجر بن عدی کون ؟ اوراسکےقتل کی اصل حقیقت۔ پانچویں قسط



حجر بن عدی کے قتل کے حوالے سے جھوٹی روایات پیش کی جاتی ہیں کہ اس کو حب علی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے قتل کیا گیا اور کہا گیا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر لعن طعن کریں تو تجھے چھوڑ دیا جائے گا حالانکہ یہ بات قطعا صحیح سند سے ثابت نہیں ہے یہ جھوٹ ہے، جبکہ مسئلہ کی اصل حقیقت اس طرح ہے کہ حجر بن عدی نے بغاوت کی تھی اس امت کے اتفاقی خلیفہ کے خلاف انتشاری تحریک برپا کی تھی ،معاویہ رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین تھے اور انہوں نے اجتہاد کرتے ہوئے مصلحت کا تقاضا یہی سمجھا کہ اسے قتل کر دیا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے

حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي يَعْفُورٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَرْفَجَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَنْ أَتَاكُمْ وَأَمْرُكُمْ جَمِيعٌ عَلَى رَجُلٍ وَاحِدٍ، يُرِيدُ أَنْ يَشُقَّ عَصَاكُمْ، أَوْ يُفَرِّقَ جَمَاعَتَكُمْ، فَاقْتُلُوهُ

ابو یعفور نے حضرت عرفجہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جب تمہارا معاملہ (حکومت) ایک شخص پر جمیع ہو، پھر کوئی تمہارے اتحاد کی لاٹھی کو توڑنے یا تمہاری جماعت کو منتشر کرنے کے ارادے سے آگے بڑھے تو اسے قتل کر دو۔

(صحیح مسلم؛ حدیث نمبر: 4798)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ جو شخص امت کے اتفاقی حکمران کے خلاف بغاوت کھڑی کر دے تو اس شخص کو قتل کیا جائے گا جو بھی ہو۔

اس نص صریح سے استدلال کرتے ہوئے اور پھر لوگوں سے مشاورت کرتے ہوئے جیسا کہ آگے آئے گا ، معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حجر بن عدی کو قتل کر وادیا لھذا اس وجہ سے ان پر کوئی طعن نہیں کیا جاسکتا، جبکہ اسلامی اصولوں کے مطابق اگر حکمران یا امیر سے اجتہادی خطا کی وجہ سے کوئی ناجائز قتل ہو جائے تب بھی وہ قابل مؤاخذہ نہیں ہے جیسا کہ کئی احادیث کے اندر اس مسئلہ کی وضاحت موجود ہے۔

حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ح و حَدَّثَنِي نُعَيْمٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى بَنِي جَذِيمَةَ فَدَعَاهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ فَلَمْ يُحْسِنُوا أَنْ يَقُولُوا أَسْلَمْنَا فَجَعَلُوا يَقُولُونَ صَبَأْنَا صَبَأْنَا فَجَعَلَ خَالِدٌ يَقْتُلُ مِنْهُمْ وَيَأْسِرُ وَدَفَعَ إِلَى كُلِّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِيرَهُ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمٌ أَمَرَ خَالِدٌ أَنْ يَقْتُلَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِيرَهُ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَا أَقْتُلُ أَسِيرِي وَلَا يَقْتُلُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِي أَسِيرَهُ حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَاهُ فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ مَرَّتَيْنِ

مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا ، انہیں معمر نے خبر دی ۔ ( دوسری سند ) اور مجھ سے نعیم بن حماد نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی ، انہیں معمر نے ، انہیں زہری نے ، انہیں سالم نے اور ان سے ان کے والد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنی جذیمہ کی طرف بھیجا ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں اسلام کی دعوت دی لیکن انہیں ” اسلمنا “ ( ہم اسلام لائے ) کہنا نہیں آتا تھا ، اس کے بجائے وہ ” صبانا ، صبانا “ ( ہم بے دین ہوگئے ، یعنی اپنے آبائی دین سے ہٹ گئے ) کہنے لگے ۔ خالد رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کر نا اور قید کر نا شروع کر دیا اور پھر ہم میں سے ہر شخص کو اس کا قیدی اس کی حفاظت کے لیے دے دیا پھرجب ایک دن خالد رضی اللہ عنہ نے ہم سب کو حکم دیا کہ ہم اپنے قیدیوں کو قتل کر دیں ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گااور نہ میرے ساتھیوں میں کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گاآخر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آ پ سے صورت حال بیان کیا تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعاکی ۔ اے اللہ ! میں اس فعل سے بیزار ی کا اعلان کرتاہوں ، جو خالد نے کیا ۔ دومرتبہ آپ نے یہی فرمایا ۔

(صحیح بخاری؛ حدیث نمبر: 4339)

اس جنگ میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فوج کے سپہ سالار تھے جب بنی جذیمہ کے لوگوں نے لفظ صبانا سے مسلمان ہونا مراد لیا تو حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو ان کے قتل کر نے سے رک جانا ضروری تھا اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت نے خالد رضی اللہ عنہ کے فعل سے اپنی براءت ظاہر فرمائی ۔ ان کی خطا اجتہاد ی تھی ۔ وہ صبانا کا معنی اسلمنا نہ سمجھے اور انہوں نے ظاہر حکم پر عمل کیا کہ جب تک وہ اسلام نہ لائیں ، ان سے لڑو اس حدیث کی شرح میں ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

الحكمة من تَبرُّئه صلى الله عليه وسلم من فعل خالد مع كونه لم يعاقبه على ذلك لكونه مجتهداً ، أن يعرف أنه لم يأذن له في ذلك خشية أن يعتقد أحد أنه كان بإذنه ، ولينزجر غير خالد بعد ذلك عن مثل فعله .

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خالد کے کام سے جو برات کا اظہار کیا اور ساتھ میں خالد کو کوئی سزا نہ دی کیونکہ وہ مجتہد تھے اس کے اندر حکمت یہی ہے کہ معلوم ہو جائے کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کام کی انہیں اجازت نہیں دی تھی آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس ڈر کی وجہ سے (ڈانٹا) کہ کہیں کوئی یہ سمجھ نہ لے کہ یہ کام آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے حکم سے ہوا تھا.( ڈانٹنے کی وجہ یہ ہے کہ) خالد متنبہ ہو جائے دوبارہ اس طرح کے کام کرنے سے ۔

آگے فرماتے ہیں:

والذي يظهر أن التبرأ من الفعل لا يستلزم إثم فاعله ولا إلزامه الغرامه ، فإن إثم المخطئ مرفوع وإن كان فعله ليس بمحمود .

جو بات ظاہر ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے جو اس کام سے برات کا اظہار کیا ہے اس برائت کے جملے سے ، اس کے فاعل کے لئے کوئی گناہ لازم نہیں آتا اور نہ ہی اس پر کوئی سزا لاگو ہوتی ہے۔بیشک ( اجتھادی)خطاء کرنے والے کا گناہ معاف ہوتا ہے اگرچہ اس کا کام تعریف شدہ نہیں ہوتا۔

اسی طرح اسامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس مسئلے کو مزید واضح کرتی ہے۔

حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو ظَبْيَانَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، يَقُولُ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْحُرَقَةِ ، فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ فَهَزَمْنَاهُمْ ، وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ رَجُلًا مِنْهُمْ ، فَلَمَّا غَشِينَاهُ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، فَكَفَّ الْأَنْصَارِيُّ فَطَعَنْتُهُ بِرُمْحِي حَتَّى قَتَلْتُهُ ، فَلَمَّا قَدِمْنَا بَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا أُسَامَةُ ، أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ؟ ، قُلْتُ : كَانَ مُتَعَوِّذًا فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَلِكَ الْيَوْمِ .

ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ حرقہ کی طرف بھیجا۔ ہم نے صبح کے وقت ان پر حملہ کیا اور انہیں شکست دے دی ‘ پھر میں اور ایک اور انصاری صحابی اس قبیلہ کے ایک شخص ( مرداس بن عمر نامی ) سے بھڑ گئے۔ جب ہم نے اس پر غلبہ پا لیا تو وہ لا الہٰ الا اللہ کہنے لگا۔ انصاری تو فوراً ہی رک گیا لیکن میں نے اسے اپنے برچھے سے قتل کر دیا۔ جب ہم لوٹے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اسامہ کیا اس کے لا الہٰ الا اللہ کہنے کے باوجود تم نے اسے قتل کر دیا؟ میں نے عرض کیا کہ وہ قتل سے بچنا چاہتا تھا ( اس نے یہ کلمہ دل سے نہیں پڑھا تھا ) ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باربار یہی فرماتے رہے ( کیا تم نے اس کے لا الہٰ الا اللہ کہنے پر بھی اسے قتل کر دیا ) کہ میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش میں آج سے پہلے اسلام نہ لاتا۔

(صحیح بخاری حدیث نمبر: 4269)

اس روایت پر غور کیا جائے تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے صرف حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے عمل سے برات کا اظہار فرمایا تاکہ آئندہ ان سے اس طرح کا عمل دوبارہ صادر نہ ہو اور کوئی سزا وغیرہ نہیں دی کیونکہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے یہ عمل اجتہادی خطا کی وجہ سے صادر ہو گیا تھا۔

معزز قارئین کرام!

حجر بن عدی نے تو بغاوت والا جرم کیا تھا جس وجہ سے احادیث کے پیش نظر وہ قتل کا مستحق ٹھیرا اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے مشاورت کرکے ان کو قتل کر وادیا اور قرآن مقدس میں ہے ( وامرھم شوری بینھم) مؤمنین کے معاملات مشورہ سے ہوتے ہیں۔

مندرجہ ذیل میں چند صحیح روایات پیش خدمت ہیں جن کے اندر مذکورہ مسئلے کی مکمل وضاحت ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد انہیں قتل کروا دیا اور تمام لوگوں نے انہیں قابل سزا جرم کا مستحق سمجھا۔

مستدرک حاکم کے اندر ایک صحیح سند روایت میں وضاحت موجود ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے حجر اور انکے ساتھیوں کے بارے میں مشورہ کیا اور انکے جرم کی وجہ سے سب نے کہا انکو قتل کردو صرف ایک شخص نے سفارش کی چھوڑ دینا چاہیے لیکن ساتھ میں اس نے بھی کہا کہ آپ نے قتل کر دیا تو درست کیا تفصیل روایت میں دیکھیں:

حدثنا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن يحيى ، ثنا محمد بن إسحاق الثقفي ، ثنا المفضل بن غسان الغلابي ، ثنا يحيى بن معين ، وهشام ، ثنا داود بن عمرو ، عن بشر بن عبد الحضرمي قال : لما بعث زياد بحجر بن عدي إلى معاوية أمر معاوية بحبسه بمكان يقال له : مرج عذراء ، ثم استشار الناس فيه قال : فجعلوا يقولون : القتل القتل . قال : فقام عبد الله بن زيد بن أسد البجلي ، فقال : يا أمير المؤمنين ، أنت راعينا ونحن رعيتك ، وأنت ركننا ونحن عمادك ، إن عاقبت قلنا : أصبت ، وإن عفوت قلنا : أحسنت والعفو أقرب للتقوى ، وكل راع مسئول عن رعيته قال : فتفرق الناس عن قوله ۔

جب زیاد نے حجر بن عدی کو معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب بھیجا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک جگہ پر قید کرنے کا حکم دیا اس جگہ کو مرج عذراءکہا جاتا ہے اس کے بعد لوگوں سے ان کے بارے میں مشورہ کیا تو لوگ کہنے لگے کہ ان کو قتل کریں ، ان کو قتل کریں، راوی کہتے ہیں عبداللہ بن زید بن اسد بجلی اٹھ کر کھڑے ہوئے اور بولے اے امیرالمومنین ! آپ ہمارے حکمران ہیں اور ہم آپ کی رعایا ہیں آپ ہماری بنیاد ہیں اور ہم آپ کے ستون ہیں اگر آپ سزا دیں گے تو ہم کہیں گے کہ آپ نے صحیح کیا ہے اور اگر آپ معاف کر دیں گے تو ہم کہیں گے آپ نے احسان کیا ہے اور معاف کرنا ہی تقوی کے قریب تر ہے اور ہر ذمہ دار سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا راوی کہتے ہیں عبداللہ بن زید بن اسد کے یہ کہتے ہی سب لوگ وہاں سے چلے گئے۔ ( عبداللہ بن زید کی بات سن کر لوگ اس لیے چلے گئے کہ وہ انکی بات سے متفق نہیں تھے کیونکہ لوگوں کے خیال کے مطابق حجر بن عدی کے جرائم ایسے تھے کہ انکو قتل ہی کیا جائے جیساکہ سارے لوگ کہ رہے تھے القتل القتل، یعنی انکو قتل کرو ،انکو قتل کرو۔ واللہ اعلم)

(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5977)

امام صالح بن أحمد بن حنبل حسن سند کے ساتھ ذکر کرتے ہیں:

حدثني أبي( الامام المحدث احمد بن حنبل) قال : حدثنا أبو المغيرة ( هو عبد القدوس بن الحجاج الخولاني، ثقة ) قال : حدثنا ابن عياش (صدوق ؛ حسن الحدیث) قال : حدثني شرحبيل بن مسلم (تابعي، ثقۃ) قال : لما بُعِث بحجر بن عدي بن الأدبر وأصحابه من العراق إلى معاوية بن أبي سفيان ، استشار الناس في قتلهم ، فمنهم المشير ، ومنهم الساكت ، فدخل معاوية منزله ، فلما صلى الظهر قام في الناس خطيباً فحمد الله وأثنى عليه ، ثم جلس على منبره ، فقام المنادي فنادى :

أين عمرو بن الأسود العنسي ، فقام فحمد الله وأثنى عليه ثم قال : ألا إنا بحصن من الله حصين لم نؤمر بتركه ، وقولك يا أمير المؤمنين في أهل العراق ألا وأنت الراعي ونحن الرعية ، ألا وأنت أعلمنا بدائهم ، وأقدرنا على دوائهم ، وإنما علينا أن نقول : { سمعنا وأطعنا غفرانك ربنا وإليك المصير }[ البقرة /285] .

فقال معاوية : أما عمرو بن الأسود فقد تبرأ إلينا من دمائهم ، ورمى بها ما بين عيني معاوية . ثم قام المنادي فنادى : أين أبو مسلم الخولاني ، فقام فحمد الله وأثنى عليه ثم قال : أما بعد فلا والله ما أبغضناك منذ أحببناك ، ولا عصيناك منذ أطعناك ، ولا فارقناك منذ جامعناك ، ولا نكثنا بيعتنا منذ بايعناك ، سيوفنا على عواتقنا ، إن أمرتنا أطعناك ، وإن دعوتنا أجبناك وإن سبقناك نظرناك ، ثم جلس .

ثم قام المنادي فقال : أين عبد الله بن مِخْمَر الشرعبي ، فقام فحمد الله وأثنى عليه ثم قال : وقولك يا أمير المؤمنين في هذه العصابة من أهل العراق ، إن تعاقبهم فقد أصبت ، وإن تعفو فقد أحسنت .

فقام المنادي فنادى : أين عبد الله بن أسد القسري ، فقام فحمد الله وأثنى عليه ثم قال : يا أمير المؤمنين ، رعيتك وولايتك وأهل طاعتك ، إن تعاقبهم فقد جنوا أنفسهم العقوبة ، وإن تعفوا فإن العفو أقرب للتقوى ، يا أمير المؤمنين لا تطع فينا من كان غشوماً ظلوماً بالليل نؤوماً ، عن عمل الآخرة سؤوماً . يا أمير المؤمنين إن الدنيا قد انخشعت أوتارها ، ومالت بها عمادها وأحبها أصحابها ، واقترب منها ميعادها ثم جلس . فقلت : القائل هو : اسماعيل بن عياش – لشرحبيل : فكيف صنع ؟ قال : قتل بعضاً واستحيى بعضاً ، وكان فيمن قتل حجر بن عدي بن الأدبر .

شرحبیل بن مسلم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں جب حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو عراق سے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی طرف بھیجا گیا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے قتل کرنے کے حوالے سے لوگوں سے مشورہ کیا تو کچھ قتل کرنے کا اشارہ کر رہے تھے اور کچھ خاموش ہوگئے پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں داخل ہوگئے جب ظہر نماز پڑھی تو لوگوں میں خطبہ دیا اللہ کی تعریف اور ثنا بیان کی پھر آپ ممبر پر بیٹھ گئے ، اسکے بعد منادی کھڑا ہوکر پکارنے لگا کہ ، عمرو بن اسود عنسی کہاں ہے؟پھر وہ کھڑے ہوئے اللہ کی تعریف و ثنا بیان کی اور کہا: میں اللہ تعالی کی طرف سے ایسے مضبوط قلعے میں ہوں جس کو چھوڑنے کا ہمیں حکم نہیں دیا گیا( قلعہ سے مراد معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت اور اطاعت ہے) امیرالمومنین اہل عراق کے بارے میں آپ کا جو فرمان ہے (اس کو آپ ہی زیادہ سمجھتے ہیں ) کیونکہ آپ راعی ( حکمران) ہیں اور ہم آپ کی رعیت ہیں آپ سب سے زیادہ ان لوگوں کی بیماری ( جرم ) کے بارے میں جانتے ہیں اور ان کی بیماری کی علاج کرنے کے حوالے سے سب سے زیادہ قدرت رکھنے والے ہیں۔ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ کہیں: ہم نے سنا اور اطاعت کی اے اللہ تیری بخشش طلب کرتے ہیں اور تیری طرف لوٹنا ہے۔

معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا عمر بن اسود نے تو ان کے خون سے برائت کرلی ہے اور معاملہ معاویہ کے آنکھوں کے سامنے چھوڑ دیا ہے۔

اسکے بعد منادی کھڑا ہوکر پکارنے لگا کہ ابو مسلم الخولانی کہاں ہے؟ پھر وہ کھڑے ہو گئے اور فرمایا :

’’اللہ کی قسم! ہم نے جب سے محبت کرنا شروع کی ہے، آپ سے نفرت نہیں کی۔جب سے آپ کی اطاعت میں آئے ہیں، نافرمانی نہیں کی۔ جب سے ملے ہیں، آپ سے جدا نہیں ہوئے۔جب سے آپ کی بیعت کی ہے، بیعت نہیں توڑی۔ہماری تلواریں کندھوں پر ہیں، اگر آپ کا حکم ہوا تو ہم سرمو انحراف نہیں کریں گے۔ اگر آپ نے پکارا تو لبیک کہیں گے۔اگر آپ ہم سے آگے نکل گئے تو ہم آپ کے پیچھے جائیں گے اور اگر ہم آگے نکل گئے تو آپ کا انتظار کریں گے۔‘‘

پھر پکارنے والا کھڑا ہوگیا اور کہا کہ عبداللہ بن مخمر شرعبی کہاں ہے؟پھر وہ کھڑے ہوئے اللہ کی تعریف اور سنا بیان کی کی پھر کہنے لگے کہ اے امیرالمومنین اہل عراق کے ( قتل کے بارے میں) آپ کا جو قول ہے.( اس کے حوالے سے ہم یہی کہتے ہیں) اگر آپ نے انہیں سزا دی تو یقیناً درست کیا اگر آپ نے انہیں معاف کر دیا تو بھی اچھا کیا۔

پھر منادی کھڑا ہوگیا اور کہا ہاں عبداللہ بن اسد قسری کہاں ہے؟ وہ کھڑے ہوئے اللہ کی تعریف اور ثنا بیان کی کی اور کہا اے امیرالمومنین یہ آپ کی رعیت اور ولایت ہے اور آپ کے اھل اطاعت ( یعنی جن پر آپ کا حکم چلتا ہے ) میں سے ہیں اگر آپ انہیں سزا دی تو انہوں نے اپنی جان کے لیے جرم کا ارتکاب تو کیا ہے۔اگر آپ انہیں معاف کر دیں تو معاف کرنا بھی تقوی کے زیادہ قریب ہے۔اے امير المؤمنین آپ کبھی اطاعت نہ کرنا اس شخص کی جو بڑا سخت ظالم ہو اور رات کے وقت بہت زیادہ سونے والا ہو( یعنی رات کو تہجد نہیں پڑھتا بلکہ سو کر گزارتا ہے) اور آخرت کے اعمال سے غافل ہو۔ ( یعنی اس مسئلہ میں ایسے کم علم وعمل افراد کی اطاعت مت کرنا ) اے امیرالمومنین بے شک دنیا نے اپنی( خزانہ کے ) رسیوں کو جھکا دیا ہے اور دنیا اپنے بلندیوں کے ساتھ مائل ہو چکا ہے ( یعنی خزانوں کے ساتھ جھک چکا ہے) اور اہل دنیا اس سے محبت کرنے لگے ہیں اور دنیا کا وقت قریب آچکا ہے۔پھر وہ بیٹھ گئے ۔

راوی اسماعیل بن عیاش کہتا ہے کہ میں نے شرحبیل سے کہا پھر ان کے ساتھ کیا ہوا ؟تو انہوں نے فرمایا( مشاورت کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے ) بعض کو قتل کردیا اور بعض کو زندہ چھوڑ دیا اور جن کو قتل کیا گیا تھا ان میں حجر بن عدی بھی تھے۔

اس روایت کے اندر عبداللہ بن اسد نے جو بات کی ، اس میں صراحت ہے کہ ان انہوں نے ایسا جرم کیا ہے کہ جس وجہ سے انہیں قتل کیا جا سکتا ہے

عبد الله بن أسد القسري ، فقام فحمد الله وأثنى عليه ثم قال : يا أمير المؤمنين ، رعيتك وولايتك وأهل طاعتك ، إن تعاقبهم فقد جنوا أنفسهم العقوبة۔

پھر منادی کھڑا ہوگیا اور کہا ہاں عبداللہ بن اسد قسری کہاں ہے؟فروغ کھڑے ہوئے اللہ کی تعریف اور ثنا بیان کی اور کہا اے امیرالمومنین یہ آپ کی رعیت اور ولایت اور آپ کے اھل اطاعت ( یعنی جن پر آپ کا حکم چلتا ہے ) ان میں سے ہیں اگر آپ نے انہیں سزا دی تو انہوں نے اپنی جان کے لیے جرم کا ارتکاب تو کیا ہے۔۔الخ

اسی طرح معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ سے بھی اس مسئلے میں مشورہ کیا تھا تھا جس کا کہ مستدرک حاکم کی صحیح روایت کے اندر موجود ہے۔

حدثنا أبو علي مخلد بن جعفر ، ثنا أبو الحسن محمد بن محمد الكارزي ، ثنا علي بن عبد العزيز ، ثنا أبو نعيم ، ثنا حرملة بن قيس النخعي ، حدثني أبو زرعة بن عمرو بن جرير قال : ما وفد جرير قط إلا وفدت معه ، وما دخل على معاوية إلا دخلت معه ، وما دخلنا معه عليه إلا ذكر قتل حجر بن عدي .

ابو زرعہ عمر بن جریر فرماتے ہیں کہ جریر(بن عبداللہ، صحابی رسول ) رضی اللہ عنہ جب بھی سفر پر گئے میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہا ہوں اور جب بھی وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے میں بھی ان کے ساتھ گیا اور ہم جب بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے وہ حجر بن عدی کے قتل کے حوالے سے تذکرہ ضرور کرتے( یعنی ان سے مشورہ کرتے کہ انہیں قتل کیا جائے یا نہیں؟)

(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5980)

نوٹ:

ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے مستدرک حاکم کے اندر ایک روایت موجود ہے اس کے الفاظ اور وضاحت یہ ہے:

حدثنا علي بن حمشاذ العدل ، ثنا معاذ بن المثنى بن معاذ العنبري ، حدثني أبي ، ثنا أبي ، عن ابن عون ، عن نافع قال : لما كان ليالي بعث حجر إلى معاوية جعل الناس يتحيرون ويقولون : ما فعل حجر ؟ فأتى خبره ابن عمر وهو مختبئ في السوق ، فأطلق حبوته ووثب ، وانطلق فجعلت أسمع نحيبه ، وهو مول .

نافع رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب حجر بن عدی کو معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب بھیجا جارہا تھا لوگ بہت حیران تھے تھے اور پوچھ رہے تھے حجر کا کیا قصور ہے؟ یہ خبر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تک پہنچی وہ بازار میں کسی جگہ چھپے ہوئے تھے تو لوگوں کے بیچ میں آگئے اور جب جارہے تھے تو میں انکی بہت زیادہ رونے کی آوازیں سن رہا تھا۔

(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5975)

نوٹ:

ابن عمر رضی اللہ عنہ کے رونے کی وجہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر تنقید یا اعتراض کرتے ہوئے نہیں تھی بلکہ انکا مقصد یہی تھا کہ حجر اتنے سمجھدار اور عابد انسان ہیں لیکن انہوں نے اتنی بڑی غلطی کر کے اپنی جان کیوں گنوادی؟؟ اور انسانی فطرت میں یہ چیز ہے کہ جب کوئی قابل شخص کسی غلطی کی وجہ سے اپنی جان کو ضایع کرا دے تو اس پر افسوس ہوتا ہے۔

نوٹ:

کسی بھی صحابی کی طرف سے معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے پر تنقید کرنا صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

 

 

 




عبدالرزاق دل رحماني کے تمام مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔