حجر بن عدی کے بارے میں علماء نے اختلاف کیا ہے کچھ علماء اسکو صحابی اور کچھ تابعی شمار کرتے ہیں جبکہ کچھ حضرات جن میں روافض و نیم روافض شامل ہوتے ہیں، ہر حال میں اسکو صحابی ہی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف زبان درازی کر سکیں اور تعجب ہے کہ ان کے ہاں جب صحابی اتنا بڑا اعزاز ہے تو خود ہی صحابی رسول معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے ساتھیوں کے خلاف بولنا شروع ہو جاتے ہیں، بحرحال حجر بن عدی کے حوالے سے راجح قول یہی ہے کہ وہ تابعی تھے اس کے صحابی ہونے کی کوئی صحیح اور صریح دلیل نہیں ملتی ۔
ابن حبان رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
امام ابو حاتم رازی رحمتہ اللہ علیہ اس کو تابعین میں شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس نے حضرت علی اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایتیں بیان کی ہیں۔
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ بھی اس کو تابعین میں شمار کرتے ہیں اور اشارہ کرتے ہیں کہ اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ سے روایات بیان کی ہیں۔
جبکہ ابن سعد نے حجر بن عدی کو اپنی طبقات کے اندرصحابہ میں شمار کیا ہے جبکہ دوسری جگہ خود ہی اس قول کی مخالفت کرتے ہوئے لکھ دیا کہ وہ اھل کوفہ اور تابعین میں سے تھا۔
ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اس کے تابعی ہونے کی بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اس کی تمام تر روایات تقریبا حضرت علی اور عمار رضی اللہ عنہما سے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نہیں ہے جو حضرات مستدرک حاکم کی ایک روایت سے دلیل لیتے ہیں کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کی ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے انہیں خطبہ دیا تھا روایت یوں ہے۔
یہ روایت سخت ضعیف ترین ہے اس میں دو علتیں ہیں۔
اس سند میں مخشی بن حجر ہیں جبکہ صحیح نام مخشی بن حجیر ہے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ سے سھو ہو گئی ہے انہوں نے حجیر کو حجر سمجھ لیا اس وجہ سے انہوں نے عن حجر بن عدی لکھ دیا اور اسی غلط فہمی کی وجہ سے انہوں نے حجر کو صحابی لکھ دیا جیساکہ محقق عادل مرشد نے وضاحت کی ہے ، ابن حجر نے بھی ( الاصابہ ج 1ص474) میں اسکو مخشی بن حجیر ہی لکھا ہے ، حجیر الگ ہیں جن كا مکمل نام حجیر بن ابی حجیر الھلالی ہیں اور حجر بن عدی الگ ہیں۔
اسی طرح طبرانی رحمہ اللہ نے( المعجم الکبیر ح3572) میں اس کو مخشی بن حجیر ہی لکھا ہے۔ اور اس مخشی کے بارے میں کوئی جرح وتعدیل نہیں ملتی۔ یاد رہے کہ اسی طرح مخشی بن حجر بن عدی نامی راوی کی بھی جرح و تعدیل نہیں ملتی۔
اس سند میں عبادہ بن عمر ہے اسکے بارے تعدیل نہیں ملتی وہ مجہول الحال ہے۔
اس سند میں عباد بن عمر ہے یہ غلطی ہےاس راوی کا اصل نام عبادہ بن عمر بن ابی ثابت السلولی ہے جیساکہ طبع دار الرسالہ کے محقق عادل مرشد نے وضاحت کی ہے۔
علامہ مقبل الوادعي مستدرک پر اپنی تعليق میں فرماتے ہیں:
یہ روایت بھی ضعیف ہے ابراہیم بن یعقوب جوزجانی سے آگے سند منقطع ہے کیونکہ انکی وافات وفات 269 ھ یا بعض نے 256 ھ لکھی ہے ۔ دیکھیں ( تھذیب الکمال ج1 ص 312) اور انکی عمر تقریباً 75 سال بتائی گئی ہے۔ اور حجر بن عدی کا قتل معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تقریباً 51ھ کو ہوا ہے درمیان میں بہت فاصلہ ہے۔
ابن حجر رحمہ اللہ ایک اور حدیث پیش کرتے ہیں کہ:
یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ ابوحفص کا سماع تو ابوھریرہ اور عائشہ رضی اللہ عنھما سے بھی ثابت نہیں جیساکہ ابوحاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات 58 ھ میں ہوئی اور ابوہریرہ کی 59ھ میں ، معاملہ اس قدر ہے کہ ابو حفص کی عائشہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہھما سے روایت سننا ثابت نہیں تو حجر بن عدی سے کیسے بیان کرسکتے ہیں؟ جس کی وفات 51 ھ میں ہوئی۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔