Defending Sahaba

Article

حجر بن عدی کون ؟ اوراسکےقتل کی اصل حقیقت۔ پہلی قسط



کیا حجر بن عدی صحابی ہیں؟

حجر بن عدی کے بارے میں علماء نے اختلاف کیا ہے کچھ علماء اسکو صحابی اور کچھ تابعی شمار کرتے ہیں جبکہ کچھ حضرات جن میں روافض و نیم روافض شامل ہوتے ہیں، ہر حال میں اسکو صحابی ہی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف زبان درازی کر سکیں اور تعجب ہے کہ ان کے ہاں جب صحابی اتنا بڑا اعزاز ہے تو خود ہی صحابی رسول معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے ساتھیوں کے خلاف بولنا شروع ہو جاتے ہیں، بحرحال حجر بن عدی کے حوالے سے راجح قول یہی ہے کہ وہ تابعی تھے اس کے صحابی ہونے کی کوئی صحیح اور صریح دلیل نہیں ملتی ۔

ابن حبان رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :

من عباد التابعین

عبادت گزار تابعین میں سے تھا۔

(مشاھیر علماء الانصار 144 ت648)

امام ابو حاتم رازی رحمتہ اللہ علیہ اس کو تابعین میں شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس نے حضرت علی اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایتیں بیان کی ہیں۔

( الجرح والتعدیل ج3ص266)

امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ بھی اس کو تابعین میں شمار کرتے ہیں اور اشارہ کرتے ہیں کہ اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ وغیرہ سے روایات بیان کی ہیں۔

(التاریخ الکبیر ج3 ص72)

جبکہ ابن سعد نے حجر بن عدی کو اپنی طبقات کے اندرصحابہ میں شمار کیا ہے جبکہ دوسری جگہ خود ہی اس قول کی مخالفت کرتے ہوئے لکھ دیا کہ وہ اھل کوفہ اور تابعین میں سے تھا۔

ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

واما البخاري و ابن ابي حاتم عن أبيه خليفه بن خياط وابن حبان فذكروا في التابعين وكذا ذكره ابن سعد في الطبقة الاولى من اهل الكوفة فاما يكون ظنه آخر واما ان يكون ذهل.

امام بخاري ،ابوحاتم رازی،خلیفہ بن خیاط،ابن حبان رحمہم اللہ نے اس کو تابعین میں شمار کیا ہے۔اسی طرح ابن سعد رحمہ اللہ نے اس کو اہل کوفہ کے پہلے طبقہ ( تابعین) میں ذکر کیا ہے ( جبکہ اسکو صحابہ میں بھی ذکر فرمایا ہے) یاں تو ان کا دوسرا خیال تھا یا تو ان سے خطا ہو گئی ہے۔

(الاصابہ ج1 472)

اس کے تابعی ہونے کی بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اس کی تمام تر روایات تقریبا حضرت علی اور عمار رضی اللہ عنہما سے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نہیں ہے جو حضرات مستدرک حاکم کی ایک روایت سے دلیل لیتے ہیں کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کی ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے انہیں خطبہ دیا تھا روایت یوں ہے۔

پہلی دلیل:

حدثنا ابو علی الحافظ انا محمد ابن الحسن بن قتيبه العسقلاني ثنا محمد بن مسكين اليمامي ثنا عباده بن عمر ثنا عكرمة بن عمار ثنا مخشى بن حجر بن عدي عن أبيه : أن النبي صلى الله عليه و سلم خطبهم فقال : أي يوم هذا قالوا : يوم حرام قال : فأي بلد هذا قالوا : البلد الحرام قال : فأي شهر : قالوا شهر حرام قال : فإن دماءكم و أموالكم و أعراضكم حرام عليكم كحرمة يومكم هذا كحرمة شهركم هذا كحرمة بلدكم هذا ليبلغ الشاهد الغائب لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض

مخشی بن حجر بن عدی اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: یہ کون سا دن ہے؟ لوگوں نے کہا: حرمت والا دن ہے۔ آپ نے پوچھا: یہ شہر کون سا شہر ہے؟ لوگوں نے کہا: حرمت والا شہر ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھایہ کون سا مہینا ہے؟ لوگوں نے کہا: حرمت والا مہینا ہے۔ تو آپﷺ نے فرمایا: تمھارے خون اور تمھارے مال اور تمھاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں، جیسے آج کے دن کی حرمت ہے، جیسے اس مہینے کی حرمت ہے، جیسے اس شہر کی حرمت ہے۔ تم میں سے جو لوگ اس وقت یہاں موجود ہیں اُن کو چاہیے کہ یہ باتیں ان لوگوں تک بھی پہنچا دیں جو اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں۔ تم میرے بعد کفر میں مت لوٹ جاناکہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرو۔

(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5982)

یہ روایت سخت ضعیف ترین ہے اس میں دو علتیں ہیں۔

پہلی علت:

اس سند میں مخشی بن حجر ہیں جبکہ صحیح نام مخشی بن حجیر ہے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ سے سھو ہو گئی ہے انہوں نے حجیر کو حجر سمجھ لیا اس وجہ سے انہوں نے عن حجر بن عدی لکھ دیا اور اسی غلط فہمی کی وجہ سے انہوں نے حجر کو صحابی لکھ دیا جیساکہ محقق عادل مرشد نے وضاحت کی ہے ، ابن حجر نے بھی ( الاصابہ ج 1ص474) میں اسکو مخشی بن حجیر ہی لکھا ہے ، حجیر الگ ہیں جن كا مکمل نام حجیر بن ابی حجیر الھلالی ہیں اور حجر بن عدی الگ ہیں۔

اسی طرح طبرانی رحمہ اللہ نے( المعجم الکبیر ح3572) میں اس کو مخشی بن حجیر ہی لکھا ہے۔ اور اس مخشی کے بارے میں کوئی جرح وتعدیل نہیں ملتی۔ یاد رہے کہ اسی طرح مخشی بن حجر بن عدی نامی راوی کی بھی جرح و تعدیل نہیں ملتی۔

دوسری علت:

اس سند میں عبادہ بن عمر ہے اسکے بارے تعدیل نہیں ملتی وہ مجہول الحال ہے۔

نوٹ:

اس سند میں عباد بن عمر ہے یہ غلطی ہےاس راوی کا اصل نام عبادہ بن عمر بن ابی ثابت السلولی ہے جیساکہ طبع دار الرسالہ کے محقق عادل مرشد نے وضاحت کی ہے۔

علامہ مقبل الوادعي مستدرک پر اپنی تعليق میں فرماتے ہیں:

في السند ( عباد بن عمر ) وصوابه ( عبادة بن عمر ) كما في ترجمة شيخه ( عكرمة بن عمار ) من ( تهذيب الكمال ) ، وعبادة بن عمر مقبول كما في ( التقريب ) ومعنى مقبول: أي إذا توبِع، وإلاّ فليّن

اس میں عباد بن عمر ہے جںکہ صحیح عبادہ بن عمر ہے جیسا کہ اس کے شیخ عکرمہ بن عمار کے ترجمے میں کے ترجمہ میں میں تہذیب الکمال میں موجود ہے اور عبادہ بن عمر مقبول ہے جیسا کہ تقریب میں ہے اور مقبول کی معنی یہ ہے کہ اس کی روایت متابعت میں حجت ہے ورنہ وہ کمزور ہے۔

(ج 3/ 576)

دوسری دلیل:

سمعت أبا علي الحافظ يقول : سمعت ابن قتيبة يقول : سمعت إبراهيم بن يعقوب يقول : قد أدرك حجر بن عدي الجاهلية ، وأكل الدم فيها ، ثم صحب رسول الله - صلى الله عليه وآله وسلم - وسمع منه ، وشهد مع علي بن أبي طالب - رضي الله عنه - الجمل ، وصفين ، وقتل في موالاة علي .

ابراہیم بن یعقوب کہتے ہیں کہ حجر بن عدی نے زمانہ جاہلیت بھی پایا پھر رسول اللہ ص اسلم کی صحبت بھی پائی آپ سے سنا بھی اور علی رضی اللہ کے ہمراہ جنگ جمل اور صفین میں شریک بھی ہوئے اور علی رضی اللہ عنہ کی دوستی میں قتل ہوئے۔

(مستدرک للحاکم؛ رقم الحدیث:5983)

یہ روایت بھی ضعیف ہے ابراہیم بن یعقوب جوزجانی سے آگے سند منقطع ہے کیونکہ انکی وافات وفات 269 ھ یا بعض نے 256 ھ لکھی ہے ۔ دیکھیں ( تھذیب الکمال ج1 ص 312) اور انکی عمر تقریباً 75 سال بتائی گئی ہے۔ اور حجر بن عدی کا قتل معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تقریباً 51ھ کو ہوا ہے درمیان میں بہت فاصلہ ہے۔

ابن حجر رحمہ اللہ ایک اور حدیث پیش کرتے ہیں کہ:

وروى بن قانع في ترجمته من طريق شعيب بن حرب عن شعبة عن أبي بكر بن حفص عن حجر بن عدي رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن قوما يشربون الخمر يسمونها بغير اسمها۔

یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ ابوحفص کا سماع تو ابوھریرہ اور عائشہ رضی اللہ عنھما سے بھی ثابت نہیں جیساکہ ابوحاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

لم يسمع من ابي هريره ولا من عائشه رضي الله عنهما.

(المراسیل لابن ابی حاتم 257)

عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات 58 ھ میں ہوئی اور ابوہریرہ کی 59ھ میں ، معاملہ اس قدر ہے کہ ابو حفص کی عائشہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہھما سے روایت سننا ثابت نہیں تو حجر بن عدی سے کیسے بیان کرسکتے ہیں؟ جس کی وفات 51 ھ میں ہوئی۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔




عبدالرزاق دل رحماني کے تمام مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔