السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھے اس اثر کے بارے میں جاننا ہے کے یہ صحیح ہے کے ضعیف ہے اور محدیثین نے اس حدیث کی اسناد کے بارے میں کیا کہا ہے اور اس اثار کے بارے میں کیا کہا ہے اثار اسناد مع متن یہ رہی:
مجھے اس حدیث کی اسناد کے بارے میں محدیثین کی رائے اور تحقیق اور شرح چاہیے جزاک اللہ خیرا
سب سے پہلے یہ روایت مع تخریج ملاحظہ ہو:
ہمارے ناقص مطالعہ کے مطابق مذکورہ روایت ان الفاظ کے ساتھ منکروضعیف ہے کیونکہ اس کے راوی زیدبن حباب صدوق وحسن الحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب اوہام واخطاء تھے جیساکہ متعدد محدثین نے صراحت کی ہے، مثلا امام احمدرحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نقل کرتے ہیں:
معلوم ہوا کہ زیدبن حباب کے صدوق وحسن الحدیث ہونے کے باوجود بھی ان سے اوہام واخطاء کا صدور ہوتا تھا ، لہذا عام حالات میں ان کی مرویات حسن ہوں گی لیکن اگرکسی خاص روایت کے بارے میں محدثین کی صراحت یا قرائن وشواہد مل جائیں کہ یہاں موصوف سے چوک ہوئی ہے تو وہ خاص روایت ضعیف ہوگی ۔
اورمذکورہ روایت کا بھی یہی حال ہے کیونکہ زید بن حباب نے ابن ابی شیبہ سے اسی روایت کو اس طرح بیان کیا ہے:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى 235)نے کہا:
غورکریں یہ روایت بھی ’’زیدبن حباب ‘‘ ہی کی بیان کردہ ہے لیکن اس میں وہ منکرجملہ قطعا نہیں ہے جوامام احمدکی روایت میں ہے ، معلوم ہوا کہ زیدبن حباب نے کبھی اس روایت کو صحیح طورسے بیان کیا ہے جیساکہ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے ، اورکبھی ان سے چوک ہوگئی ہے جیساکہ مسند احمد کی روایت میں ہے۔
اورچونکہ مسنداحمد کی روایت میں ایک بے جوڑ اوربے موقع ومحل جملہ ہے اس لئے یہی روایت منکرقرار پائے گی۔
چنانچہ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی جب اس روایت کومجمع الزوائدمیں درج کیا تو منکرجملہ کو چھوڑدیا، امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے لکھا:
اس روایت کی تخریج کرنے والے امام احمدرحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو منکرقراردیاہے،چنانچہ:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
ایک اورموقع پرکہا:
نیز فرمایا:
عرض ہے کہ حسین بن واقد ثقہ راوی ہیں اوران کی مذکورہ روایت ابن ابی شیبہ کے یہاں جن الفاظ میں ہے اس میں کوئی نکارت نہیں ہے لہٰذا وہ روایت صحیح ہے جب کہ مسند احمد کی زیربحث روایت ضعیف ہے کیونکہ اسے امام احمدنے روایت کیا ہے اورآپ نے حسین بن واقد کی مرویات کو منکرقراردیاہے۔
ہمارے نزدیک راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ زیربحث روایت میں نکارت کا ذمہ دار حسین بن واقد نہیں بلکہ زید بن الحباب ہے کمامضٰی۔
اس حدیث کے منکروضعیف ہونے کے باوجود بھی گرچہ اس میں ایک بے جوڑ اوربے موقع ومحل جملہ ہے، پھربھی اس جملہ سے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا شراب پینا قطعا ثابت نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ سائل نے زیربحث روایت کا جو ترجمہ پیش کیا ہے وہ قطعا درست نہیں،اس میں درج ذیل غلطیاں ہیں:
متن حدیث میں مذکور ’’شراب‘‘ کا ترجمہ اردو والے شراب سے کرنا غلط ہے کیونکہ اردو میں جسے شراب کہتے ہیں اس کے لئے عربی میں ’’خمر‘‘ کالفظ استعمال ہوتا ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ ’’شراب‘‘ کا ترجمہ ’’مشروب‘‘ سے کیا جائے یعنی پینے کی کوئی چیز۔
متن کا یہ جملہ ’’جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے، میں نے اسے نہیں پیا‘‘ صحابی رسول بریدہ رضی اللہ عنہ کا مقولہ نہیں ہے جیساکہ سائل کے پیش کردہ ترجمہ میں ہے بلکہ یہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا مقولہ ہے جیساکہ سیاق سے صاف ظاہر ہے ۔
ان دونوں غلطیوں کی اصلاح کے بعد حدیث مذکور کا صحیح ترجمہ اس طرح ہوگا:
صحابی رسول عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اورمیرے والد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں بسترپربٹھایا ، پھرہمارے سامنے کھاناحاضرکیا جسے ہم نے کھایا ، پھرمشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا اورپھر میرے والد کو پیش کیا ، اوراس کے بعد کہا : میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں قریش کے نوجوانوں میں سب سے خوبصورت تھا اورسب سے عمدہ دانتوں والا تھا ، جوانی میں مجھے دودھ یا اچھی باتیں کرنے والے انسان کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں لذت نہیں محسوس ہوتی تھی۔
مذکورہ روایت میں ’’شراب‘‘ سے مراد کوئی حلال مشروب یعنی پینے والی چیز تھی اس سے اردو والا شراب یعنی ’’خمر‘‘ مراد لینا کسی بھی صورت میں درست نہیں ، نہ سیاق وسباق کے لحاظ سے اس کی گنجائش ہے اورنہ ہی امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے اس کی امید ہے۔
بلکہ اردو والا شراب یعنی ’’خمر‘‘ مراد لینے سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بریدہ رضی اللہ عنہ پربھی حرف آتاہے کہ انہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہا تھوں ایسے مشروب کو کیوں لیا جو حرام تھا ، بلکہ ایسے دسترخوان پر بیٹھنا بھی کیونکرگوارا کیا جس پرشراب (خمر) کا دور چلتاہو، کیونکہ ایسے دسترخوان پربیٹھنا کسی عام مسلمان کے شایان شان نہیں چہ جائے کہ ایک صحابی اسے گوارکریں ۔
مزیدیہ کہ ایسے دسترخوان پربیٹھنے کی ممانعت بھی واردہوئی ہے اس سلسلے کی مرفوع حدیث (ترمذی2801 وغیرہ) گرچہ ضعیف ہے لیکن خلیفہ دوم عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے موقوفا یہ ممانعت بسندصحیح منقول ہے ، چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے کہا:
أخبرنا معمر عن زيد بن رفيع عن حرام بن معاوية قال كتب إلينا عمر بن الخطاب لا يجاورنكم خنزير ولا يرفع فيكم صليب ولا تأكلوا على مائدة يشرب عليها الخمر وأدبوا الخيل وامشوا بين الغرضين
معلوم ہواکہ مذکورہ روایت میں مشروب سے خمر مراد لینا کسی بھی صورت میں درست نہیں ۔
اسی طرح اس سے نبیذ مراد لینا بھی درست نہیں جیساکہ مسنداحمد کے مترجم نے کیا ہے ، چنانچہ سائل کا پیش کردہ ترجمہ معلوم نہیں کہاں سے ماخوذ ہے، لیکن بعینہ یہی ترجمہ مسند احمد کے اس مترجم نسخہ میں موجودہے جو محدث لائبریری میں اپلوڈ ہے ، ملاحظہ ہو مترجم نسخہ سے اس روایت کے ترجمہ کا عکس:
IMG
یہ ترجمہ بالکل وہی ہے جو سائل نے پیش کیا ہے لیکن نسخہ والے ترجمہ میں ’’شراب‘‘ کا ترجمہ ’’نبیذ ‘‘سے کیا ہے، جبکہ سائل کے ترجمہ میں نبیذ کو ہٹا کرسیدھا شراب ہی لکھ دیا گیاہے۔
بہرحال ’’شراب‘‘ُ کاترجمہ نبیذ سے کرنا بھی غلط ہے کیونکہ اول شراب کا معنی نبیذ نہیں ہوتا ، دوم روایت کے سیاق وسباق میں بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ یہ پینے والی چیز نبیذ تھی ۔
بلکہ روایت کے اخیر میں دودھ کا ذکر ہے اورامیرمعایہ رضی اللہ عنہ نے دودھ اپنا پسندیدہ مشروب بتلایا ہے اس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے دودھ ہی پیا تھا یعنی شراب سے مراد دودھ ہی ہے۔
چنانچہ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو نقل کرکے اس پر یہ باب قائم کیا ہے:
مذکورہ روایت کی بیچ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی جو یہ وضاحت ہے کی کہ:
اس وضاحت میں جس چیز کے پینے کی بات ہورہی ہے وہ خمر یعنی شراب ہی ہوسکتی ہے کیونکہ اسے ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہے۔
اور ’’ما شربته ‘‘ میں جو ضمیر ہے اس کا مرجع محذوف ہے اور وہ خمر ہے ، اہل عرب کبھی کبھی ضمیر کے مرجع کو حذف کردیتے ہیں ، بلاغت کی اصطلاح میں اسے ’’ الإِضمار في مقام الإِظهار ‘‘ کہتے ہیں یعنی جس ضمیرکا مرجع معلوم ہو اس مرجع کو بعض مقاصد کے تحت حذف کردینا ، اورمعاویہ رضی اللہ عنہ نے یہاں ضمیرکے مرجع خمرکو حذف کیا ہے ، اورمقصد خمر کی قباحت و شناعت کا بیان ہے یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خمر سے اتنی نفرت تھی کہ آپ نے اس کانام تک نہیں لیا ۔
اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت اورشراب سے ان کی نفرت ظاہر ہوتی ہے۔
اورشراب سے نفرت کا اظہار کرکے معاویہ رضی اللہ عنہ نے دودھ کواپنا پسندیدہ مشروب قرار دیا،اس سے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ بلکہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ بھی وضاحت کہ قبل ازاسلام بھی ان کے نزدیک دودھ ہی سب سے پسندیدہ مشروب تھا، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے شراب کو ہاتھ نہیں لگایا ، بلکہ اس کے بجائے وہ دودھ ہی نوش فرماتے تھے۔
یاد رہے کہ معراج میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شراب اور دودھ پیش کیا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کو منتخب کیا ، بخاری کے الفاظ ہیں:
ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ: فِي أَحَدِهِمَا لَبَنٌ وَفِي الآخَرِ خَمْرٌ، فَقَالَ: اشْرَبْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ ، فَقِيلَ: أَخَذْتَ الفِطْرَةَ أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ
معلوم ہواکہ دودھ کو پسند کرنے میں معاویہ رضی اللہ عنہ فطرت پر تھے یہ چیز بھی ان کے فضائل میں سے ہے، والحمدللہ۔
اب سوال یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ وضاحت کیوں کی ؟
تو عرض ہے کہ مذکورہ روایت میں اس کا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے اسی لئے ہم نے شروع میں کہا کہ یہ وضاحت محمود ہونے کے باوجود بھی بے موقع ومحل ہے۔
مسند احمد کے معلقین لکھتے ہیں:
ترجمہ: معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ: ’’میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا‘‘ غالبا یہ بات معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس وقت کہی جب انہوں نے بریدہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر کراہت و ناپسندیدگی کے آثاردیکھے بریدہ رضی اللہ عنہ کے اس گمان کی وجہ سے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں حرام مشروب دے دیا ہے،والله أعلم
عرض ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ وضاحت کی یہ توجیہ کرنا غلط ہے کیونکہ اول تو صحابہ کرام سے یہ توقع نہیں ہے کہ ایک دوسرے کے بارے میں اس طرح کی بدگمانی میں مبتلاہوجائیں ، نہ تو بریدہ رضی اللہ عنہ ، ایک جلیل القدر صحابی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دسترخوان پرشراب کا شبہہ کرسکتے ہیں اورنہ ہی امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اس سوء ظن میں مبتلا ہوسکتے ہیں کہ بریدہ رضی اللہ عنہ کی کسی ناپسندیدگی کی وجہ، معاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق ان کی بدگمانی ہے۔
ہٰذا مسند احمد کے معلقین نے جو توجیہ پیش کی ہے وہ ہماری نظر میں بالکل درست نہیں۔
بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ ممکن ہے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف کچھ منافقین نے یہ افواہ اڑا رکھی ہو کہ وہ شراب پیتے تھے اس لئے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اپنے مہمانوں کے سامنے وضاحت کرتے رہے ہوں ، اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں حالات کیا تھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے دشمنان اسلام اورمنافقین نے جوکچھ کیا وہ تاریخ میں محفوظ ہے اس لئے بعید نہیں سلف کے کردار کو مجروح کرنے کے لئے ان کے خلاف یہ پرپیگنڈا کیا گیا ہو جس طرح ان کے بیٹے یزید رحمہ اللہ کے بارے میں بھی ظالموں اورفاسقوں بلکہ کفار و منافقین نے شراب خوری وغیرہ کی تہمتیں لگائی ہیں اوران کے ہم نوا آج بھی ایسا کررہے ہیں۔
ہماری پیش کردہ یہ توجیہ بھی محض ایک قیاس و ظن ہے ، کوئی قطعی بات نہیں ہے ۔
یاد رہے کہ یہ ساری باتیں اس صورت میں کہی جائیں گی جب مذکورہ روایت کے ثبوت پرقرائن وشواہد مل جائیں ورنہ ہماری نظرمیں یہ روایت منکروضعیف ہے جیساکہ شروع میں وضاحت کی گئی واللہ اعلم۔