رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ آپ نے فرمایا:
اس روایت کی تمام اسناد ضعیف ہیں۔
لیکن کچھ علماء اس روایت کو صحیح سمجھتے ہیں اور قاتل صحابی رسول رسول صلی اللہ وسلم وسلم ابو غادیہ رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے ہیں انکا نام يسار بن سبع تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس روایت کی تمام اسناد ضعیف ہیں اس روایت کی مختلف کتابوں کے اندر چار کے قریب اسناد موجود ہیں اس روایت پر بحث کرتے محدث، علامہ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جس روایت میں آیا ہے کہ سیدناعمار رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا اور سامان چھیننے والا جھنم میں ہے، اس کی تخریج وتحقیق درج ذیل ہے۔
یہ سند ضعیف ہے۔ لیث بن ابی سلیم جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔
بوصیری نے کہا :
ابن الملقن نے کہا:
امام نسائی نے فرمایا:
( اس روایت کی دو سندیں مزید شیخ نے ذکر کیں اور انکے بارے میں شخ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں)
یہ سند سلیمان بن طرخان التیمی کے "عن" کی وجہ سے ضعیف ہے۔ سلیمان التیمی مدلس تھے۔ دیکھئے
امام یحییٰ بن معین نے فرمایا:
امام ابن معین کی اس تصریح کے بعد سلیمان التیمی کو طبقئہ ثانیہ یا اولیٰ میں ذکر کرنا غلط ہے بلکہ حق یہ ہے کہ وہ طبقئہ ثالثہ کے مدلس ہیں لہٰذا اس روایت کو "صحیح علیٰ شرط الشیخین" نہیں کہا جاسکتا۔
اس روایت کے بارے میں شیخ البانی نے کہا : "وھٰذا أسناد صحیح ، رجالہ ثقات رجال مسلم۔۔۔"
عرض یہ ہے کہ ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ تک اس سند کے صحیح ہونے کا مطلب نہیں ہے کہ "قاتلہ و سالبہ فی النار" والی روایت بھی صحیح ہے۔
ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : "فقیل ۔۔۔ إلخ" پس کہا گیا کہ تو نے عمار بن یاسر کو قتل کیا ہے۔ اور عمرو بن العاص کو یہ خبر پہنچی ہے تو انھوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک اس (عمار) کا قاتل اور سامان لوٹنے والا آگ میں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا راوی "فقیل" کا فاعل ہے جو نامعلوم (مجہول) ہے۔راوی اگر مجہول ہو تو روایت ضعیف ہوتی ہے لہٰذا یہ "فی النار" والی روایت بلحاظِ سند ضعیف ہے۔ "إسنادہ صحیح" نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ سے روایت دو راوی بیان کررہے ہیں : (ا) ابو حفص : مجہول (ب) کلثوم بن جبر : ثقہ امام حماد بن سلمہ رحمہ اللہ نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ انھوں نے کس راوی کے الفاظ بیان کئے ہیں ؟ ابو حفص (مجہول) کے یا کلثوم بن جبر (ثقہ) کے اور اس بات کی بھی کوئی صراحت نہیں ہے کہ کیا دونوں راویوں کے الفاظ من و عن ایک ہی ہیں یا ان میں اختلاف ہے۔
انتھی کلام الشیخ زبیر رحمۃ اللہ علیہ۔
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ اس طبقات ابن سعد اور مسند احمد والی سند نمبر تین کے بارے میں علامہ، محدث ذھبی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
جس انقطاع کی طرف ذھبی نے اشارہ کیا ہے اسکی یہ مندرجہ ذیل صورت بھی ہو سکتی ہے:
اس روایت میں جملہ ہے (فاخبر عمرو) حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کو خبر دی گئی سیدناعمار رضی اللہ عنہ کو قتل گیا ہے۔
سوال یہ ہے یہ جملہ کہنے والا کون ہے؟
گویاکہ ذھبی رحمہ اللہ کا اشارہ اس طرف ہے کہ یہ جملہ کہنے والا کلثوم بن جبر ہے۔ یعنی کلثوم بن جبر کہہ رہے ہینکہ عمرو رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا کہ عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کیا گیا ہے تو اس وقت عمرو رضی اللہ عنہ فرمایا: قاتل عمار۔۔۔۔۔ الخ اور کلثوم بن جبر کا جابر رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں لھذا سند منقطع ہے.
اس حوالے سے جو طبقات ابن سعد کا متن ہے وہ سخت ترین معلول ہے۔ اس میں دو علتیں ہیں۔
اس مذکورہ روایت کے حوالے سے طبقات ابن سعد کے الفاظ ہیں:
جبکہ مسند احمد میں امام احمد نے یہ الفاظ ذکر نہیں کیے بلکہ وہاں الفاظ ہیں :
یعنی مسند احمد اور ابن سعد کے متن میں ٹکراؤ ہے، جبکہ سند ایک ہی ہے۔
دونوں جملوں کے مفہوم میں بڑا فرق ہے۔
مسند میں ہے عمار کو قتل کر دیا گیا ہے یعنی قاتل کا پتہ نہیں جبکہ دوسری روایت کے مطابق قاتل ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ تو ٹکراؤ کی صورت میں بھی ترجیح مسند احمد والی روایت کو ہوگی کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ،ابن سعد رحمہ اللہ سے کئی گناہ زیادہ احفظ، اور اوثق ہے لھذا طبقات ابن سعد کا متن بھی معلول ہے۔
حافظ ابن حجر التقريب میں احمد بن حنبل کے ترجمے میں کہتے ہیں:
اور ابن سعد کے ترجمے میں فرماتے ہیں:
دونوں شخصیتوں کا فرق واضح ہے۔
ابن سعد کے اندر الفاظ ہیں ابو غادیہ کہتے ہیں کہ:
اب آپ بتائیں کہ خلیفہ برحق سیدنا امیرالمومنین عثمان رضی اللہ عنہ کو عمار رضی اللہ عنہ گالیاں کیسے دے سکتے ہیں؟
یہ بھی قادح نکارت موجود ہے اس متن میں۔
اس روایت کی ایک اور بھی سند بھی ہیں لیکن وہ بھی ضعیف ہیں۔
ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس روایت کو نہیں جانا جاتا مگر حسن بن دینار کی اس سند کے ساتھ۔
اور حسن بن دینار سخت ضعیف ترین راوی ہے ۔
اسکے بارے میں ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ابن حبان رحمہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب المجروحین (ج 1 ص206 الرقم: 206) میں ذکر کرتے ہیں اور کئی محدثین کے اقوال ذکر کرتے ہیں جو اسے مردود کہتے ہیں ان میں سے یحییٰ بن معین بھی ہیں۔
عقیلی اس کو ضعفاء میں ذکر فرماتےہیں اور ابن مبارک اور وکیع رحمہم اللہ کے اقوال نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کی روایت کو ترک کر دیا۔
اسی طرح ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔
اسی طرح دیگر محدثین مثلا ابوداؤد، نسائی،فلاس، ابو خیثمہ رحمھم اللہ نے بھی اسکی سخت جرح کی ہے۔ ( تفصیل کےلیے لسان المیزان اور تھذیب الکمال وغیرہ دیکھیں).
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ کا قاتل آگ میں ہے یہ روایت اپنی تمام اسناد کے ساتھ ضعیف اور مردود ہے۔
اس حوالے سے کچھ علماء کا خیال ہے کہ وہ ابوغادیہ رضی اللہ عنہ تھا۔
لیکن صحیح موقف یہ ہے کہ اس کے بارے میں کوئی حتمی معلومات نہیں ہے۔ جیساکہ مسند احمد میں صحیح سند کے ساتھ ایک روایت ہے
مذکورہ روایت پر غور کیا جائے تو تین صورتیں ہیں، وکیل صحابہ ابویحییٰ صاحب لکھتے ہیں:
اب دو صورتیں ہوسکتی ہیں:
(1) ان دونوں میں سے ایک سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ ہونگے۔
(2) یہ دونوں دعویدار کوئی اور ہونگے۔
اگر یہ دونوں کوئی اور ہیں تو پھر سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے قتل کا دعوی کرنےو الے تین لوگ ہوئے،اور اگر یہ مان لیا جائے کہ ان دونوں میں سے ایک ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ تھے اور دوسرا کوئی اور تھاتو پھر بھی کم ازکم دو لوگ دعویدار ہیں اس بات کہ ہم نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ہے،اب اس صورتِ حال میں کیسے حتمی اور یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ قاتلِ عمار ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ ہی ہیں؟اب ظاہر ہے کہ جنگ کے موقع پر کسی کے پاس اتنا اطمینان نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ یقینی طور پر یہ دعوی کرے کہ میرا تیر ہی اس کو لگا اور وہ میرے تیر کی وجہ سے ہی فوت ہوا، کیونکہ ہر طرف سے تو تیر آرہے ہوتے ہیں،جب کہ دوسرا شخص بھی یہی دعوی کرتا ہے کہ میرے تیر کی وجہ سے قتل ہوئے ہیں، اب تین یا کم ازکم دو بندے دعویدار ہیں ان میں سے آپ کسی ایک کے بارے میں یقینی اور حتمی طور پر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہی قاتل ہے؟ ہم اس صحیح حدیث کی وجہ سے اس بات کو نہیں مانتے کہ سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ ہی یقینی اور حتمی طور پر قاتلِ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب ایسا نہیں کیا جاسکتا تو وہ وعید کہ جس میں ہے کہ عمار کا قاتل اور اس کا مال لوٹنے والا جہنم میں جائے گا سیدنا ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ پر فٹ نہیں کی جاسکتی۔
انتھی کلام الشیخ حفظہ اللہ تعالیٰ۔
اس میں ابن سعد نے امام احمد کی مخالفت کی ہے جس میں ہے کہ ابوغادیہ رضی اللہ عنہ کو کہا گیا تم نے قتل کیا ہے۔ اس روایت کی سند اور متن کے حوالے تفصیلی بحث آغاز میں گزرا۔
س حوالے سے طبراني الكبير 364/22 (زوائد المسند4/ 76) وغیرہ میں ایک روایت موجود ہے جس میں اشارہ موجود ہے کہ ابو غادیہ رضی اللہ عنہ نے عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا لیکن وہ سند بھی صحیح نہیں۔
اس روایت میں سب سے بڑی علت یہ ہے کہ اس میں عبد الأعلى بن عبد الله بن عامر بن كريز القرشی۔ نامی راوی موجود ہے لیکن وہ مجہول ہے ان کےبارے میں کوئی جرح و تعدیل نہیں ملتی۔
امام بخاری نے(التاريخ الكبير 6ص71 رقم الترجمة=1742) میں اور ابو حاتم الرازی نے (ج6ص27 الجرح والتعدیل) میں ان کا صرف تذکرہ کیا اور کوئی جرح وتعدیل نہیں کی۔
کئی علماء کی رائے کے مطابق ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ بیعت رضوان میں شریک ہوئے تھے۔جیسا کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
عرب کے بڑے افراد میں تھے اہل شام کے گھڑسواروں میں سے تھے ،کہا گیا کہ وہ صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے تھے تھے اور اس سے مروی کئی مسند احادیث ہیں۔ صلح حدیبیہ کے شرکاء کیےلیے رب کا قرآن میں فیصلہ ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
اس حدیث اور قرآن سے پتہ چلا کہ اھل بیعت رضوان سے اللہ ہمیشہ کےلیے راضی ہوگیا ، انکے دلوں میں موجود سچا ایمان اللہ تعالی نے جان لیا،اور وہ کبھی جہنم میں داخل نہیں ہوں گے۔
چنانچہ محقق اہل حدیث نورپوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
اسی طرح جو علماء سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ کو قاتلِ عمار رضی اللہ عنہ سمجھتے ہیں (علامہ البانی رحمہ اللہ کے علاوہ)ان کا بھی یہ موقف ہے کہ سیدنا ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ کی اگرچہ یہ غلطی ہے لیکن بیعتِ رضوان شریک ہونے کی وجہ سے اللہ نےاس وقت بشارت دی اس بشارت کی وجہ سے یہ غلطی ختم اور معاف ہوجائے گی، ہم نے اپنا موقف صحیح احادیث کی روشنی میں بیان کردیا ہے
سلف میں سے کچھ علماء اگرچہ یہ مؤقف رکھتے تھے کہ حضرت عمار کا قاتل ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ ہے لیکن سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو جنگِ صفین میں شہید کرنا ان کی اجتہادی خطا ہے اس بات کی طرف حافظ ابن حجر العسقلانی نے دیکھئے الاصابۃ (151/4 ت 881 ، ابو الغادیۃالجہنی)
اسی طرح دیگر کئی علماء کے اقوال موجود ہیں۔
جب اجتھادی خطاء ہے تو اللہ کی بخشش بہت کشادہ ہے، ابو غادیہ رضی اللہ عنہ کو اللہ کی رحمت اور بخشش سے محروم کرنے والے روافض کون ہو سکتے ہیں؟