صفہ کا چبوترہ اسلامی تاریخ کا وہ عظیم القدر مقام ہے۔ جس نے وحی الٰہی کی کرنوں کو چہار دانگ عالم میں نہ صرف پھیلایا، بلکہ ان کرنوں کی آب و تاب اور ضیاء پاشیوں نے شرک کے اندھیروں کو دفاعی قدم لینے پر مجبور کردیا۔ توحید کی ضو پھیلی تو شرک و کفر کے ایوانوں کو اپنا آپ لرزتا ہوا محسوس ہوا، یہ آقائے کریمﷺ کے مبارک لفظوں کی تقسیم گاہ تھی، جہاں تقوی و للہیت اور محبت رسول کے بھاو پر شریعت کا اصلی فہم بانٹا جاتا تھا۔ یوں تو اس چبوترے کے تمام طلبہ اپنی مثال آپ ہیں، لیکن دوس قبیلے کے غریب الدیار، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس درس گاہ کا پوزیشن ہولڈر طالب علم مانا جاتا ہے۔ علم کی جو حرص آپ کو عطا کی گئی تھی، کسی دوسرے کے نصیب میں نہیں آئی، اسی لئے تو پیمبر علیہ السلام فخر سے کہا کرتے تھے، ابو ہریرہ مجھے معلوم تھا کہ یہ سوال سب سے پہلے آپ پوچھیں گے۔
کملی والے کے ہاتھوں پر بیعت کی پھر وہیں کے ہورہے، دو وقت کا کھانا مل جاتا تو کھا لیتے، کئی دفعہ فاقہ کاٹ لیتے، کھانا چھوڑ دیتے تھے مگر آقا کی حدیث نہیں چھوڑتے تھے۔ پھر رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد دنیا نے انہیں محدث مدینہ کے طور پر جانا۔
رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد پچاس برس تک زندرہ ہے اور حلقہ حدیث قائم کئے رکھا۔ اپنی پوری زندگی بیان حدیث اور عمل حدیث کے لئے وقف کردی۔
آپ کی کل روایات تقریبا اٹھارہ سو بنتی ہیں، مکررات کو حذف کر کے دیکھیں تو 1475رہ جاتی ہیں اور ان میں سے جو صحیح سند سے ثابت ہیں، وہ تقریبا935 یا اس سے کچھ آگے پیچھے ہیں۔
رسول اللہﷺ کے کسی دوسرے صحابی نے اس تعداد میں روایات بیان نہیں کیں۔ کسی کی روایات تین سو، چار سو، پانچ سو، چھ سو، یا حد ساڑھے چھ سو تک گئی ہیں، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ان سے سبقت لے گئے ہیں۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء یہ وہ میدان ہے، جہاں بڑے بڑے صحابہ ان تک نہیں پہنچ پاتے ہیں اور یہی وہ امتیاز ہے جو عرصہ دراز سے اسلام کے دشمنوں کو کھٹکتا چلا جاتاہے۔
تو یہ اعتراض پر اعتراض اٹھانے لگتے ہیں۔ اجی نبی کے ساتھ دو سال رہنے والے نے پانچ ہزار روایات کیسے بیان کر لیں؟ حالاں کہ ان دین و عقل سے جاہل دشمنوں کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات پانچ ہزار نہیں ہیں، جن محدثین نے پانچ ہزار روایات کا ذکر کیا ہے تو وہ سندوں کے اعتبار سے کیا ہے۔
مثلا ایک حدیث کی پچاس سندیں ہیں تو محدثین ان کو پچاس حدیثیں گنتے ہیں، اس طرح پانچ ہزار تک ان کی روایات پہنچتی ہیں،یا اس سے بھی زیادہ ہوجاتی ہیں۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے ساتھ 1400 دن رہے ہیں اور ان میں دو سو جمعے بھی آتے ہیں۔ تو کیا جو چودہ سو دن آقا کے ساتھ رہا ہو، وہ 950 احادیث بھی نہیں سنے گا؟
پھر آپ سبھی روایات رسول اللہ ﷺ سے بیان نہیں کرتے بلکہ دیگر صحابہ سے سن کر بھی بیان کرتے ہیں، یہ آپ کی علم سے حد درجہ محبت تھی۔ اسی طرح آپ کی تمام روایات پر دوسرے صحابہ نے متابعت کر رکھی ہے۔ ایسا نہیں کہ 950 حدیثیں صرف سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہی بیان کی ہیں، بلکہ ایسا ہے کہ وہ روایات دیگر صحابہ نے بھی بیان کر رکھی ہیں۔ صرف 110 احادیث ایسی ہیں جو آپ نے بیان کی ہیں اور ان کا تعلق زیادہ تر فضائل، شمائل یا اس قسم کے معاملات کے ساتھ ہے۔
فلہٰذا کج فہموں کا یہ اعتراض بجائے خود ختم ہوجاتا ہے کہ اتنی کثرت سے روایات کیسے بیان کر لی گئی ہیں۔