Defending Sahaba

Article

عدالت صحابہ پر شیعہ سے ایک فیصلہ کن کلام



اصول کافی میں ایک روایت آتی ہے ، منصور بن حازم امام صادق علیہ الرحمہ سے پوچھتاہے کہ مجھے اصحاب رسول ﷺ کے متعلق خبر دیجئے گا، کیا وہ رسول اللہﷺ پر سچ کہتے تھے یا جھوٹ؟ تو امام صادق نے فرمایا: وہ سچ کہتے تھے۔  پھر وہ سوال کرتا ہے کہ پھر صحابہ کی مرویات میں اختلاف کیوں ہے؟ تس پہ امام فرماتے ہیں: بھائی، بندہ ایک دفعہ سوال کر کے چلا جاتا تھا، پھر وہ حکم منسوخ ہوجاتا تھا، وہ مگر ناسخ حکم کو نہیں جان پاتا تھا، یہ وجہ اختلاف کی ہے۔ (اصول کافی : 1/65)

مشہور شیعہ محقق، مصنف مشرعۃ بحار الانوار آصف محسنی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، پھراس کی تاویل کرتے ہوئے لکھتا ہے :

فالظاہر نظارۃ الکلام الی مجموع الاصحاب من حیث المجموع فی مجموع روایاتہم ، ای لم یکذب جمیعہم فی جمیع روایاتہم

'' اس کلام کے ظاہر سے یوں معلوم ہوتاہے کہ صحابہ اپنی مجموعی روایات کے اعتبار سے سچے ہیں، یعنی انہوں نے اپنی تمام روایات میں جھوٹ نہیں بولا، تمام روایات جھوٹی نہیں ہیں،اس روایت میں ہر شخص کی سچائی کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

(بحوث فی علم الرجال : ص82)


مذکورہ استدلال مگر بوجوہ صحیح نہیں ہے :

اس شخص نے امام سے سوال پوچھا ہے اور امام مطلق سوال کا مطلق جواب دے رہے ہیں، اگر اس جواب  میں تفصیل ہوتی تو یوں فرماتے کہ بعض ثقہ تھے بعض غیر ثقہ تھے،انہوں نے مگر فرمایا کہ جھوٹ نہیں بولتے۔

پھر راوی نے تفصیل چاہی کہ ان میں اختلاف کیوں ہے؟ یہ تفصیل بتانے کا بہترین موقع تھا، امام کہہ دیتے کہ ظاہر ہے کچھ جھوٹے بھی ہوتے ہیں، انہوں نے مگر فرمایا : ان میں اختلاف کی وجہ ناسخ کا عدم علم ہے۔ یعنی جھوٹ کی طرف پھر بھی نسبت نہیں کی۔

لیکن ہم آصف محسنی کا یہ استدلال تھوڑی دیر کے لئے قبول کر لیتے ہیں، مان لیتے ہیں کہ ان کی صرف اجماعی روایات صحیح ہوں گی، اب سوال یہ ہے کہ اجماعی سے مراد؟

کیا وہ روایات جو تمام صحابہ نے بیان کی ہوں؟ تو ایسی کوئی روایت موجود نہیں، حتی کہ مناقب علی المرتضی رضی اللہ عنہ میں بیان ہونے والی بھی کوئی ایسی روایت نہیں، جو سب نے بیان کی ہو۔

یا وہ روایات جو کسی ایک نے یا بعض نے بیان کر دی ہوں مگر صحابہ کا اجماع ان پر معترض نہ ہوا ہو؟ اگر وہ روایات مراد ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے لے کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تک،سیدنا انس عبد اللہ بن عمر وضی اللہ عنہمم وغیرہ سب صحابہ بیان کرتے رہے، مگر کسی دوسرے صحابی نے اعتراض نہیں کیا۔  حتی کہ کئی صحابہ کے حلقہ ہائے حدیث موجود تھے۔ تو دوسری صورت ہی درست ہے اور یہی اصل الاصول ہے۔ کیوں کہ اجماع کے ثبوت کے لئے اگر ہر ہر شخص کی تصریح کی شرط لگا دی جائے تو خود شیعہ مذہب ختم ہوجائے؟ مثال لیجئے، شیعہ کتب رجال میں کئی راویوں کے متعلق دعوی ہوتا ہےکہ ان کی توثیق پر اجماع ہے۔ لیکن ہر ہر شخص کی شرط لگا دی جائے تو آپ ثابت تک نہ کرسکیں۔
لہذا آصف محسنی کے کلام کے مطابق بھی بفضلہ صحابہ کی عدالت کا اصول ثابت ہوجاتا ہے۔

ممکن ہے کوئی شیعہ استدراکات صحابہ پر بحث کرے تواس حوالے سے مفصل ابحاث موجود ہیں، آپ دیکھ سکتے ہیں، البتہ بالفرض ان استدراک کو درست مان لیا جائے تو بھی ان سے ضعف لازم نہیں آتا، کیوں کہ علل کا فن اسی چیز کا نام ہے ، جس میں ثقات کی خطائیں بیان کی جاتی ہیں۔اسی لئے سلف میں سے بعض کا یہ قول بھی رہا ہے کہ بسا اوقات سچا انسان بھی صحیح سن نہیں  پاتا، خطا کرجاتا ہے۔




ابوالوفا محمد حماد اثری کے تمام مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔