Defending Sahaba

Article

کیا تاریخ میں سند کا لحاظ نہیں کیا جائے گا؟



پچھلی دو صدیوں میں تحقیق و تخریج کے محدثانہ ذوق نے  دوبارہ سے انگڑائی لی ہے، پھر ہم نے دیکھا کہ چند ہی سالوں میں، اسلامی نصوص، تاریخی روایات اور سلف سے منقول ذخیرے کی چھان پھٹک کا سلسلہ چل نکلا، کتب علل کی طرف رجحان ہوا،سلف اول کی کتابوں کو مخطوطات سے نکال کر  طلبائے علم کے سامنے رکھ دیا گیا، بلا شبہ اس روش کے عام کرنے میں برصغیر کے علماء کا بھی بہت بڑا حصہ رہا،بلکہ رشید رضا مصری کے بقول  تو اس فن کو دنیا میں دوبارہ زندہ کرنے والے، برصغیر ہی کے اکابر تھے۔

لیکن اس عرصے میں منہج محدثین کی مخالف آوازیں بھی اتنی ہی شدت سے بلند ہوتی رہیں، بعضے پرانی روش کے بزرگوں کا ماننا تھا کہ تحقیق حدیث کا سلسلہ چل نکلا تو آدھا دین ضعیف ہوجاوے گا، پھر مگر آہستہ آہستہ یہ رجحان غلط ہوگیا، اب  تقریبا ہر معقول انسان اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے ۔

زمانہ گزرا تو حدیثی نصوص کے ساتھ ساتھ تاریخ اور سیرت کے مطالعہ میں بھی محدثین کے اسلوب کی چھاپ نظر آنے لگی،محققین عظام نے صحیح اور ضعیف کو پرکھنا شروع کیا، تو لکھتے چلے گئے، اس  کے بیسیوں فوائد سامنے آئے، کئی بت ٹوٹے،  کتنے ہی پرانے خیالات کو ضعیف ثابت کیا گیا، بعض چیزیں جن کو اسلام سمجھ لیا گیا تھا، اسلام کے منافی ثابت ہوئیں، قال شیخنا کی روش ختم ہوئی، این سندہ کی فطری  صدائیں بلند ہوئیں، تاریخی روایات  کا باہمی تضاد،احادیث سے تعارض،راویوں کے جھوٹ اور مورخین کے تعصب کھل کر سامنے آنے لگے۔

دوسری طرف سے پھر وہی رد عمل دہرایاگیا، جو پہلے پہل تحقیق حدیث کے منہج کے خلاف دیا جاتا تھا، لوگ کہنے لگے کہ تاریخ اور حدیث کے اصول ایک جیسے نہیں ہیں، حدیث کے کذاب راویوں کو تاریخ میں ثقہ ٹھہرانے کی روش چل نکلی ، وغیرہ وغیرہ

فی زمانہ علم پرور معاشروں میں بالتدریج اس روش  کو دیس نکالادیا جارہا ہے،لیکن برصغیر میں اس سوچ کو بڑی شدت سے عام کیا جاتا ہے، اس کے پیچھے اور بھی بہت سارے عوامل کار فرما ہوں گے، ہمیں مگر اس مخالفت کی جو سمجھ آتی ہے، وہ ایک مفروضہ ہے کہ اس طرح ہماری تاریخ ضائع ہوجائے گی،یا پھر محض تعصب کہ یوں تو ہمارے بزرگوں کے نکالے  ہوئے نتائج ضعیف قرار پائیں گے۔

ہم آج انہیں مفروضات اور خیالات پر گفتگو  کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ آخر کیوں ہم تاریخ کو من وعن مان لیں؟

کیا یہ طے کر لیا گیا ہے کہ تاریخ میں تبدیلی نہیں کی گئی؟

یا کتب تاریخ اپنی طر ف سے باتیں گھڑ کر بیان نہیں کی گئیں؟ 

یا پھر  ایک مورخ جھوٹ نہیں بول سکتا؟ 

اسلام کی تاریخ معاصر زمانے میں لکھی گئی یا بعد کے زمانوں میں؟  

اگر دو تین صدیوں بعد لکھی گئی ہے تو پھر کس طریقے سے صحیح اور غلط کی چھان پھٹک کی جاسکے گی؟

 ان کا جواب تو متفقہ طور پر یہی ہے  کہ تاریخ میں تدلیس کاری بھی ہوئی، جھوٹ کی آمیزش بھی کی گئی، مورخین نے اپنے اذہان اور تعصبات کو تاریخ بنا کر پیش کیا، علامہ سبکی لکھتے ہیں :

اہل تاریخ نے  کئی لوگوں کو چھوڑ دیا، کئیوں سے روایات لے لیں،نہیں معلوم یہ تعصب تھا یا محض غیر موثقین پر اعتماد،بہر کیف مورخین میں جہالت اور تعصب بھرا پڑا تھا۔۔۔

پھر لکھتے ہیں:

آپ کو ایسی تاریخ  خال خال ہی ملے گی،جو اس قسم کے رویوں کی خرد برد سے محفوظ رہی ہو۔

(قاعدۃ فی المورخین :ص66)

اسی  طرح ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں ایسے بہت سارے اسباب ذکر کئے ہیں،جن کی بنا پر ایک مورخ جھوٹ بول جاتا ہے۔

(تاریخ ابن خلدون : 1/47)

 سبکی کہتے ہیں کہ میں نے  مکمل چھان پھٹک کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ جتنے بھی مورخین ہیں، ان سب کی بیان کردہ تواریخ میں ان کے عقیدے کا اثر لازما ظہور پذیر ہوا ہے۔

( قاعدۃ فی المورخین :ص68)

شیخ عثمان الخمیس کہتے  ہیں :

تیسری صدی کا نصف گزرنے کے بعد صحابہ کی تاریخ کو منسوخ کرنے ابتداء ہوگئی تھی اور یہ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں کبار صحابہ کرام کے احوال اور ان کی صحیح روایات میں تو ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ معلوم ہو کہ سیدنا علی ان سے ناخوش تھے،جیسا کہ شیعہ حضرات ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

(آئینہ ایام تاریخ : ص19)

مزید لکھتے ہیں :

تاریخ کا معاملہ حدیث سے بھی مشکل ہے،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس میں تساہل سے کام لیں اور بلاتحقیق تاریخی روایات کو قبول کرتے چلے جائیں۔ نہیں ! بلکہ ہمیں تحقیق کرنیچاہئے اور ہمیں اپنے حقیقی تاریخ کو حاصل کرنے کا فن سیکھنا چاہئے۔

(ص23)

اور انہیں وجوہات کی بنیاد پر علامہ سبکی رحمہ اللہ نے مورخ کی روایت قبول کرنے کے ضوابط کچھ یوں بیان کئے ہیں :

مورخ کا سچا ہونا ضروری ہے، اور تاریخ کی روایت کا  روایت باللفظ ہونا ضروری ہے،ایسا نہ ہو کہ مورخ نے روایت سنی کسی وقت میں ہو اور لکھی بعد میں ہو، اور اسی طرح مورخ کا یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس نے یہ روایت کس سے سنی ہے؟۔

( قاعدۃ فی المورخین :ص68)

گویا راوی کا صدق سب سے اولین ضابطہ ہے، پھر روایت بالمعنی تک قبول نہیں، اور اس روایت کی سند ضروری امر ہے، اب یہ کیا ہے؟ وہی محدثین والا اسلوب ۔

اور اس میں سبکی اکیلے  نہیں ہیں، بلکہ محدثین و مورخین اسلام کی کتب میں استقراء کرنے سے معلوم  ہوتا ہے،کہ ان کے ہاں تاریخ کو کٹہرے میں کھڑے کئے جانے کا  رواج پایا جاتا تھا، محدثین تاریخی واقعات کو صرف سند کی بنیاد پر ضعیف قرار دیتے تھے،کلبی نامی ایک معروف  جھوٹا راوی گزرا ہے،امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ  کوئی محدث اس سے  روایت بیان نہیں کرتا، یہ انساب  اور قصے کہانیاں بیان کیا کرتا تھا، ()

اسی طرح ابن عدی رحمہ اللہ  نے لکھا کہ  یہ زیادہ تر قصے کہانیاں بیان کرتا تھا ،مسند میں اس نے کچھ بھی بیان نہیں کیا، اور اس کا باپ بھی کذاب تھا۔()

یہ بندہ صرف تاریخ اور نسب بیان کرتا ہے،  حدیث  اس نے بیان تک نہیں کی، مگر محدث اس کو کذاب قرار دے رہے ہیں۔

اسی طرح  سیف بن عمر صرف تاریخی روایات کا راوی ہے،امام ابن عبد البر اس کی ایک روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے  ہیں :

یہ روایت سیف بن عمر نے بیان کی ہے اور  سیف متروک الحدیث ہے۔()

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ منہاج السنہ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :

''  رسول اللہ کے صحابہ پر ہونے والے اکثر مطاعن  کذاب لوگوں کے بیان کردہ ہیں، جیسا کہ ابومخنف  لوط بن یحییٰ،ہشام بن محمد کلبی وغیرہ

(منہاج السنۃ :5/81)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ محمد بن حنفیہ کے ایک قصہ کے ذیل میں لکھتے ہیں، اس سلسلے میں وارد روایات  ابو مخنف لوط بن یحییٰ سے بیان ہوئی ہیں اور وہ  اپنی روایات میں متہم  ہے۔

(البدایۃ والنہایۃ :8/274)

ملیکہ بنت یزید بیان کرتی ہیں کہ عبد الرحمان فوت ہوئے تو  ان کا سر میری گود میں تھا، تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ 

یہ قول شاذ ہے،ااور  اس کا راوی ابومخنف کذاب ہے۔

(تاریخ الاسلام للذہبی :6/23)

تطویل کا خوف دامن گیر ہے، اسی پر اکتفاء کرتے ہیں،آپ دیکھیں کہ ان مثالوں سے تاریخ میں عدم  تحقیق کا  قاعدہ غلط ہوجاتا ہے، کہ جب   تاریخ صدیوں بعد لکھی گئی ہو، مورخین میں تعصب ہو، سند کی ضرورت ہو، جھوٹے لوگ روایات گھڑ گھڑ کر  بیان کر دیتے ہوں،تب پھر  تحقیق کی ضررت مزید بڑھ جاتی ہے، اسی باعث ذہبی ثانی،علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

تاریخ میں تو  راویوں کے احوال کی حاجت اور بھی زیادہ ہے۔

(علم الرجال واہمیتہ : ص17)

یہ بھی کلئیر ہوا کہ تاریخ کی سند کو پرکھنے کا کام ہم نے کچھ آج شروع نہیں کیا، بلکہ ائمہ اہل سنت کا ابتداء ہی سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے۔

اسی طرح یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ تاریخی روایت میں راوی اور متن دونوں پر جرح کیا جانا ضروری ہے، اور جرح کی بنیاد ائمہ محدثین کے فیصلوں کو بنایا جائے گا، بعد کے تمام مورخین اس قضئے پر متفق ہیں۔

کچھ سوال مگر باقی ہیں اور وہ یہ کہ :

1۔ کیاتاریخ محدثین کا فن ہے کہ انہیں کے فیصلے معتبر مانے گئے؟

2۔مذکورہ منہج اپنانے سے اسلامی تاریخ ضائع نہ ہوجائے گی؟

3۔ کیا ایک ایسا شخص جو حدیث گھڑ لیتا ہو، تاریخ میں ثقہ ہوسکتا ہے،جیسا کہ واقدی؟ 

4۔ محدثین نے جو تاریخ میں تساہل کا ذکر کیا ہے،ا س سے کیا مراد ہے؟

تو اگلی نشستوں میں ان سوالات پر بحث کی جائے گی، آج کے لئے اتنا ہی،فی امان اللہ !




ابوالوفا محمد حماد اثری کے تمام مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔