Defending Sahaba

Article

منافق کون؟ صحابہ یا صحابہ کا دشمن



 میں دیر تک ٹکٹکی باندھے اپنے دوست کا منہ تکتا رہا۔
 او پائی تینوں خیر اے؟
بھیا، خیریت تو ہے نا؟
ان کی ہماری پرانی صاحب سلامت تھی اور بے تکلف صحبت بھی، سو، مکمل احترام کے ساتھ ایک دوسرے  پر جگتیں کس لیا کرتے تھے، ہماری مجلس میں ہلکے پھلکے مزاح کی آمیزش سے شاعری، ادب، سیاست وغیرہ ڈسکس ہوتا رہتا، دینی معاملات میں مگر کم ہی کبھی گفتگو ہوئی۔

آج اس نے  اچانک گفتگو کا رخ موڑا اور بولا صحابہ صحابہ کرتے رہتے ہو، صحابہ تو منافق تھے؟

حبیبم! ایسا کیا موضوعات کا کال پڑا کہ آپ صحابہ پر ہی برسنے لگے؟

بولا ! یار تم لوگ جھوٹے ہو، قرآن کا ایک رخ دکھاتے ہو، دوسرا چھوڑ دیتے ہو، وہ تو شکر ہے کہ آج  ایک سچے بندے سے ملاقات ہو گئی، اس کے پاس قرآن کا مترجم  نسخہ تھا، میں نے خود دیکھا، اس میں صحابہ کو منافق لکھا تھا، وہ نسخہ ساتھ لے آیا ہوں، ترجمہ بھی سنی علماء نے کیا ہے۔

اچھا ! کیا واقعی منافق لکھا ہے، دکھائیے تو؟ میں نے حیرت زدہ لہجے میں کہا!
یہ خود پڑھو کیا لکھا ہے؟

وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ

[التوبة: 101]

''اہل مدینہ میں سے بعض لوگ نفاق پر اڑ گئے ہیں، اے پیغمبر ! آپ ان کو نہیں جانتے، ہم جانتے ہیں۔''

پڑھ لیا، اب  فرمائیں! یار اب بھی سمجھ نہیں آیا؟
عالی جاہ ! مولانیت سے باہر آؤ اور دیکھو کہ کتنا واضح طور پر مدینہ والوں کو منافق لکھا ہے، مدینہ والے صحابہ ہی تو تھے۔

اوہ، یہ تو واقعی حیران کن بات ہے، میرے اساتذہ تو آج تک جھک مارتے رہے، اور سب صحابہ کو مومن کہتے رہے، میں نے خفیف سا ہو تے ہوئے سرگوشی کی۔

بولا ! یہی تو بات ہے، ہمارے مولوی دین کو چھپا لیتے ہیں، آدھا بیان کرتے ہیں آدھا بیان نہیں کرتے، یہ پرلے درجے کے دوغلےہوتے ہیں۔

عرض کیا، ہاں یار،آج تو آپ نے میری آنکھیں کھول دیں، میں خود ان مولویوں سے بڑا تنگ آیا پڑا تھا، دن رات اوکھلی میں گردن دی ہوتی ہے، صبح نماز پڑھنے آجاؤ، آج صدقہ کرو، آج جمعہ پڑھو، عید پڑھو، سردیوں میں تہجد پڑھو، فلاں حضرت فوت ہوگئے، جنازے پر تشریف لے جاؤ!
بس آج کے بعد کچھ نہیں کروں گا، جان چھوٹی سب کھکھیڑوں سے، آج سے ہم ہنسیں گے، کھیلیں گے، ناچیں گے، گائیں گے اور مولوی جو کام کہے گا اس کو تو بالکل بھی نہیں کریں گے۔  ان شاء اللہ

بولے، او پاجی! توانوں خیر وے؟
آپ تو اسٹارٹ ای  ہوگئے۔
نماز، روزہ زکوۃ، مولوی کا حکم تھوڑی ہے، یہ تو اللہ کا حکم ہے، اس کو بھلا کیوں چھوڑنا ہے؟

یار، یہ سب کچھ تو ہم  کو صحابہ نے بتایا ہے، جب صحابہ ہی منافق تھےتو ان چیزوں پر اعتبار کیوں کریں؟
بولا ! نہیں نہیں، سارے صحابہ تو منافق نہیں تھے، بس بعض صحابہ منافق تھے؟
جانی یہ نماز اور روزے وغیرہ سارے صحابہ نے تو نہیں سکھائے، بعض صحابہ ہی  نے سکھائے ہیں، اور آپ کہتے ہو کہ بعض صحابہ منافق تھے۔ ہوسکتا ہے ان بعض منافق صحابہ نے سکھائے ہوں؟

اب خفیف ہونے کی باری میرے دوست کی تھی، کہنے لگا ! اوہ، یہ تو نئی گھمبیرتا آن پڑی۔
اچھا میں کل پوچھ کے آتا ہوں، عرض کیا ! بہ حضور مضائقہ ندارد !  بہ صد شوق جائیے، اور اس مسئلہ کو حل کرکے لے آئیے، منتظر رہوں گا۔

اگلے روز میرے دوست نے آتے ہی کہا:

حضرت آپ کے سوال کا جواب مل گیا، اور خوب ملا، مولاعلی علیہ السلام منافق اور مسلمان کے بیچ  فرق ہیں۔
عرض کیا، سمجھا نہیں، کچھ  تفصیل دیجئے تو؟

بولے ! تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو مولاعلی رضی اللہ عنہ سے محبت کرے گا وہ مومن ہے، اور جو مولاعلی سے نفرت کرے گا وہ منافق ہے؟ تو ہم دیکھیں گے کہ جو جو لوگ سیدنا علی سے محبت کرتے تھے، ان کو مسلمان صحابی کہیں گے اور جو جو لوگ سیدنا علی سے نفرت کرتے تھے، ان کو منافق کہیں گے۔ سناؤ! کیسا دیا، مل گیا نہ تمہارے سوال کا جواب؟

بالکل نہیں ملا، میں نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔

ہیں جی، کیا واقعی؟ میں نہیں مانتا کہ تم اتنے کوڑھ مغز ہوگے، ایک موٹی سی بات بھی سمجھ نہیں آتی ؟

پوچھا بھائی میرے! رسول اللہﷺ کا یہ فرمان کس نے نقل کیا ہے کہ علی سے نفرت کرنے والا جنتی ہے اور علی سے محبت کرنے والا جنتی ہے؟
صحابہ نے ہی تو نقل کیا ہے، اور خود مولا علی نے نقل کیا ہے۔ میرے دوست  نے بلند آواز سے پکار کر کہا۔
او سجنا، یہی تو پرابلم ہے، اب ہمیں کیا پتہ کہ بیان کرنے والا مسلمان ہے یامنافق، ہوسکتا ہے کسی منافق نے خود سے گھڑ لیا ہو؟ کیوں کہ بعض صحابہ منافق  بھی تھے؟

پس میں ابھی تک مطمئن نہیں ہوا، سو آج کے بعد کوئی نماز روزہ زکوۃ حج جہاد کا خیال ختم، صلہ رحمی ختم، دوست داری حرام، کل سے چائے کے پیسے لیا کروں گا تجھ سے، ایویں مفتے میں چائے بھی نہیں دوں گا۔

یار، مینوں تے الجھا کے رکھ دیا تو نے؟  میں یہ کیسے مان لوں کہ دین ختم ہوگیا، نہ نماز باقی رہی، نہ روزہ رہا؟
عرض کیا، پھر تمام صحابہ کو مومن مان لو، بولا! قرآن کا کیا کروں گا؟ جس میں بعض صحابہ کو منافق لکھا ہے۔؟

عرض کیا، سوہنڑیا! اب ذرا ٹریک پہ لاتا ہوں، جھوٹ آپ کو نئے سجن  نے بتایا ہے، ہم نے سچ کا خلاصہ  بتایا تھا، پر ابھی آپ کو میں تفصیل نہیں بتاؤں گا، اب آپ کے نئے سجن کے ساتھ تھوڑا سا کھیلوں گا، پھر حقیقت حال بیان کروں گا، کیوں کہ جھوٹا وہ ہے، ہم نہیں ہیں۔

اسی آیت کو دوبارہ کھولئے اور پڑھئے کہ کیا لکھا ہواہے؟

وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ

[التوبة: 101]

''اہل مدینہ میں سے بعض لوگ نفاق پر اڑ گئے ہیں، اے پیغمبر ! آپ ان کو نہیں جانتے، ہم جانتے ہیں۔''

 قبلہ پڑھ لی آپ ؟غور سے پڑھ لی؟

اب اپنے دوست سے پوچھ کر آئیے کہ اس آیت میں بعض اہل مدینہ کو منافق لکھا ہے یا سب کو؟  
اور یہ بھی کہنا کہ اس آیت میں صرف مدینہ والوں کو منافق لکھا ہے، اس کا مطلب ہے کہ مکہ والے منافق نہیں تھے؟
تو کیا ہم یہ تقسیم نہ کرلیں کہ مدینہ میں بعض لوگ منافق ہیں اور مکہ  میں کوئی منافق نہیں ہے؟
کیا آپ کا نیا سچا سجن اس تقسیم کو مان لے گا؟ جایئے اور پوچھ کر واپس آجائیے!

اس نے وہیں پر نمبر ڈائل کردیا، بولا: کیا یہ بات ٹھیک ہے کہ مکہ  میں کوئی منافق نہیں، اور مدینہ میں بعض منافق ہیں؟ دوسری جانب سے ایک وقفہ ہوا، میرے دوست نے زور دیا، کچھ بولئے حضور ! آواز آئی کہ نہیں نہیں ، مکہ میں بھی بعض منافق موجود تھے۔
تب ہم نے عرض کیا کہ واہ کیا در فشانی کی ہے ، قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ بعض مکہ والے منافق تھے؟
آئیں بائیں شائیں  ہوئی اور یہ کہہ کر نمبر  بند کردیا گیا کہ ملاقات پر آپ کو سمجھاؤں گا۔
دوست سے عرض کیا کہ کل ہی ملاقات  کیجئے اور اسی بات پر زور دیجئے کہ آپ کو یہ تقسیم کیوں منظور نہیں ہے؟
ملاقات ہوئی، اگلے روز میرے دوست نے بتایا کہ اس کے مطابق مکہ میں بھی منافق موجود تھے، اس  پروہ  اپنی روایتیں سنا کر استدلال قائم کرتا ہے، پھر کہتا ہے کہ سنیوں نے بھی یوں یوں لکھا ہوا ہے۔ لہذا یہ پوری امت کا اجماعی مسئلہ ہے، اور فلاں فلاں محدث نے لکھا کہ اجماع حجت ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ

عرض کیا بھائی صیب ! سوال تیتر اور جواب  برائلر مرغی، تمہارے سجنوں کی پرانی عادت ہے۔

 سوال قرآن تھا، امت کا اجماع اور روایات وغیرہ تو تب حل ہوں گی، جب روایات کے بیان کرنے والے کا عدم نفاق کلئیر ہوگا، جناب کے استدلال اور جناب کی بیان کردہ آیت میں تو بعض اہل مدینہ کو منافق لکھا تھا، اہل مکہ کو نہیں لکھا تھا، وہاں قرآن کی مخالفت میں اور اپنے ہی استدلال کی مخالفت میں روایتیں سنا سنا کر اہل مکہ کو بھی منافق بنا دیا، ہم نے تھوڑی دیر کے لئے وہ بھی مان لیا، مگر سوال تو ابھی بھی قائم تھا، جب بعض اہل مدینہ اور بعض اہل مکہ منافق تھے، تب پھر روایت سنانے کا تک ہی نہیں بنتا، کیوں کہ جس کی روایت سناؤ گے، اس کے بارے میں یہ شک تو موجود رہے گا کہ جانے وہ منافق تھا یا کہ مسلمان تھا۔

اب میرا دوست ہکا بکا تھا، میں اس کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا، سو، عرض کیا کہ سنو میری جان !
تم اس کے پاس جاو گے، وہ الٹے سیدھے استدلال سے، جھوٹ دھوکے اور فراڈ سے، سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر و عثمان، سیدہ عائشہ صدیقہ، سیدہ حفصہ، سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم  اجمعین کو منافق قرار دینے کی کوشش کرے گا، لیکن ان مقدس ہستیوں کو منافق قرار دینے ک ا مطلب یہ ہوگا کہ تمہارا نیا دوست اپنی ہی پیش کی گئی آدھی آیت کو ٹھکرا رہا ہے اور آدھی کو مان رہا ہے، اب تم  پوچھو گے کہ وہ کیسے؟ تو پھر یہ آیت  دوبارہ پڑھو!

 ''اہل مدینہ میں سے بعض لوگ نفاق پر اڑ گئے ہیں، اے پیغمبر ! آپ ان کو نہیں جانتے، ہم جانتے ہیں۔''

آخری الفاظ پر غور  کرو، یہاں صاف لکھا ہے کہ اے پیغمبر تم منافقوں کو نہیں جانتے، ہم مگر جانتے  ہیں۔
جب پیغمبر بھی نہیں جانتے تھے تو یہ چودہ صدیوں بعد کیسے جانتا ہے؟ دوست ذرا مطمئن ہو رہا تھا، عرض کیا کہ ابھی مطمئن نہ ہوئیے، آپ نے اتنا جان لیا کہ نئے حضرت خود جھوٹے تھے، لیکن سوال ابھی بھی قائم ہے، پھر سے سوچئے کہ اگر اللہ نے اپنے نبی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ منافق  کون ہے اور مسلمان کون ہے تو بایں صورت دین اور زیادہ مشکوک ہوجاتا ہے، کیا پتہ کس نے دین میں کون سی  نئی بات ایڈ کردی۔

یہ سوال  حل کرنے کے لئے اسی سورۃ توبہ کی دوسری آیات کو دیکھو، اللہ اپنےپیغمبر سے فرماتے ہیں:

يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ

[التوبة: 73]

''اے نبی! کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے۔''

اللہ اپنے پیغمبر  کو حکم دیتے ہیں کہ کفار او ر منافقین سے جہاد کیجئے، ان پر سختی کیجئے، اس  آیت  کا دوسرا معنی یہ ہے کہ پہلے رسول اللہﷺ کو منافقین کے متعلق معلوم نہیں تھا، پھر اللہ نے بتا دیا کہ فلاں فلاں لوگ منافق ہیں، سو، ان کے ساتھ سختی کیجئے، وگرنہ تو حکم دینے کا معنی ہی کوئی نہیں بنتا۔

اب اس سے بھی واضح آیت سورۃ توبہ ہی سے لیجئے، اللہ منافقین کے متعلق بیان کرتے ہوئے ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُلْ لَا تَعْتَذِرُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ

[التوبة: 94]

"یہ لوگ چلے آرہے ہیں اور اپنے اپنے عذر پیش کرتے جاتے ہیں، ان سے کہہ دیجئے کہ  عذر پیش کرنے کی ضرورت نہیں، ہم آپ  کی باتوں پر یقین نہیں کرنے لگے، اللہ نے ہم کو تمہاری خبروں سے آگاہ کردیا ہے۔''

یعنی اللہ نے اپنے پیغمبر کو بتلا دیا تھا  کہ کون کون سے لوگ منافق تھے، سو اسی پر تدبر کیجئے کہ اللہ نے  اپنے پیغمبر کو بتا بھی دیا فلاں فلاں منافق ہیں اور ان کے متعلق یہ  حکم بھی جاری کردیا کہ ان کے ساتھ سختی کیجئے۔

تو یقینا اس کے بعد سارا کیس پیغمبر علیہ السلام کے طرز عمل اور تعامل پہ جا کر ٹھہر جاتا ہے، اور اسی سے حق اور باطل کے فیصلے ہوجاتے ہیں، وہ یوں کہ جن کے ساتھ سختی کا حکم ہو، آمنہ کا لال ان کے ساتھ سختی ہی کرے گا، ان کی بیٹیوں سے شادیاں نہیں کرے گا، ان کے گھروں میں اپنی بیٹیاں نہیں بیاہے گا، ان کو اپنی وحی کاتب نہیں رکھے گا، اور ان کے لئے دعائیں نہیں کرے گا، بلکہ ان سے جہاد ہی کرے گا، سختی ہی کرے گا۔

 جب ہم اس قاعدے اور کلئے کو مان لیں گے تو پھر سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و عائشہ و معاویہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو منافق کہنے والا خود بخود جھوٹا قرار پائے گا، اور وہ بھی جھوٹا ہوگا جو سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو منافق کہے گا، کیوں کہ ان مقدس ہستیوں کے ساتھ پیغمبر نے سختی نہی  کی، بلکہ محبت برتی ہے، ان کے مشتاق رہے ہیں، ان کے ساتھ سفر کئے ہیں، ان کو اپنے راز بتائے ہیں، حتی کہ ان سے ریلیٹڈ چیزوں تک کا حیا کیا ہے۔

اب رہا منافقین کے ساتھ آقا کا تعامل تو، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کے دور میں منافقین کا جو چھوٹا سا گروہ تھا،  اس کو مکمل طور پر اگنور کر دیا گیا تھا، ان کو  نہ تو مسلمانوں کے اجماعی معاملات میں شامل کیا گیا، نہ ان  سے لین دین رکھا گیا اور نہ ان کے نام تک لئے گئے۔ سو وہ اپنی موت آپ مر گئے، نہ انہوں نے روایت دین میں حصہ لیا اور نہ انہوں نے مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں شکرت کی۔

رسول اللہﷺ نے اپنے پیاروں کو بھی بتلا دیا کہ فلاں فلاں  لوگ منافق ہیں، مثلا سیدنا حذیفہ کو بتا دیا، اسی طرح سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  نے ایک دفعہ خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:

پیغمبر علیہ السلام کے زمانے میں ہم کو پتہ چل جاتا تھا کہ منافق کون ہے اور مسلمان کون ہے، اب چوں کہ وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا تو آپ کے ظاہری اعمال دیکھ کر ہی حکم لگایا جاسکتا ہے۔ صحیح البخاری: 2641

یوں ایک اور بات واضح  ہوئی کہ آقا علیہ السلام کے تعامل کے ساتھ ساتھ آپ کے مقربین کا تعامل بھی مومن اور منافق کی پہچان واضح  کردے گا، اب بھلا بتلائیے کہ جو منافق ہو، وہ سیدنا عمر کے ہوتے ہوئے حدیث کا حلقہ کیسے لگا سکتا تھا؟ اور وہ سیدنا عمر کے دور میں امیر لشکر کیسے بن سکتا تھا؟

میرے پیارے دوست! کچھ سمجھے آپ؟

اب بھی اگر نہیں سمجھے تو آسان لفطوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ پیغمبر کا کسی صحابی  کے ساتھ محبتانہ برتاؤ کرنا، اس کے نفاق سے آزاد ہونے کی واضح دلیل ہے، اور جن جن صحابہ کو یہ لوگ منافق کہتے ہیں ان کی پیغمبر سے اور پیغمبر کی ان سے محبتیں کچھ ایسی ہیں کہ دنیا کا کوئی فرد بشر انکار تک نہیں کرسکتا۔  فلہذا ان کے منافق ہونے کا تو سوال ہی پیدا ہی نہیں ہوتا، البتہ ان صحابہ کو منافق کہنے والے کے ایمان پر سوال ضرور کھڑے ہوجاتے ہیں، اور وہ سوال میں آپ  پر چھوڑ دیتا ہوں، خود ہی قائم کیجئے، اور اپنے دل سے جواب لیجئے!ہر چیز  ضروری تو نہیں کہ میں ہی بتاؤں، اب آپ اتنے کند ذہن تو نہیں ہوسکتے کہ میری مراد بھی نہ سمجھ پائیں۔

نوٹ:

یہ ایک علامتی کہانی ہے، صرف سمجھانے کی غرض سے لکھی گئی ہے، البتہ فریق مخالف کا استدلال پیش کرنے میں  اپنے علم کی حد تک ایمانداری برتی گئی ہے۔ واللہ اعلم




ابوالوفا محمد حماد اثری کے تمام مضامین پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔