شیعہ یا سنی روایات کو چھوڑ کر قرآن سے فیصلہ کرتے ہیں۔
1۔ اگر کافر سمجھتے تھے تو سوال اٹھے گا کہ کیا قرآن میں کوئی ایسا قانون موجود ہے کہ جس کے مطابق کافر سے بھی بیعت لی جائے گی؟ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک کافر سے بیعت کا مطالبہ کیوں کیا؟
2۔ اگر منافق سمجھتے تھے تو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کے مطابق ان کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہئے تھا، یاد کرو جب ایک جنگ سے بہت سارے لوگ پیچھے رہ گئے، جن میں اکثر منافقین تھے، تین صحابہ بھی مگر ان میں تھے۔ تو منافقین کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا، مگر صحابہ کا بائیکاٹ کیا گیا۔
یعنی منافقین کے تئیں حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے کہ ان کو قومی دھارے سے وکھرا ہی رکھا جائے۔ تو ایسی صورت احوال میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہئے تھا، وہ اگر نہیں بیعت کرتا تو نہ کرے۔ بیعت تو مسلمان سے لی جاتی ہے۔
3۔ تیسرا آپشن قرآن نے بیان کر دیا ہے، وان طائفتان من المومنین، یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ مومن تھے، بس سیدنا علی مخالف گروہ کو باغی سمجھ رہے تھے، اسی لئے ان سے جنگ کے لئے نکلے۔
ایک سوال مگر اٹھایا جاسکتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پیش نظر مسلمانوں کا علاقہ ایک منافق یا کافر سے چھڑوانا تھا، تب پھر سوال پیدا ہوگا کہ وہ علاقہ جب ایک منافق یا کافر کو دیا جا رہا تھا تب جناب علی رضی اللہ عنہ کیوں نہیں بولے؟ حالاں کہ تب بولنا ان پر فرض تھا۔
نوٹ: اصل قاعدہ یہ ہے کسی بھی صحابی کو منافق کہنے والے سے اس کی دلیل طلب کی جائے گی، نہ کہ صحابی کو مسلمان ثابت کرنے کی سعی، کیوں کہ اصل ایمان ہے، اب ایمان سے کسی کے پھرنے کی دلیل چاہئے ہوتی ہے نہ کہ ایمان پر قائم رہنے کی، اس کو سمجھ لیجیے۔